احتساب ہو تو نظر بھی آنا چاہیے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 کرپشن اس وقت پاکستا ن کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، کرپشن چونکہ معاشروں کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں انتہائی کردار ادا کرتی ہے، اس لیے بدعنوانی کو پاکستان کا نمبر ایک مسئلہ قرار دینے میں مبالغہ آرائی نہیں ہے۔

پاکستان میں جس طرف نظر دوڑائیں ہر طرف کرپشن کا دور دورہ ہے، افسر شاہی بغیر رشوت کے کوئی کام کرنے کو تیار نظر نہیں ، پاکستان میں لوگوں کو قانونی کام کیلئے بھی غیر قانونی طریقے اختیار کرنے پڑتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں جس فائل کو پہیے لگے ہوں وہ تو دنوں میں پاس ہوجاتی ہے اور جس فائل کو پیہوں کی سہولت میسر نہ ہو وہ میرٹ پر پورا اترنے کے باوجود بھی فیل ہوجاتی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف ملک میں کرپشن کے خاتمے کا عزم لیکر اقتدار میں آئی لیکن عالمی رپورٹس کے مطابق گزشتہ دو سال میں مسلسل پاکستان میں کرپشن میں اضافہ ہوا ہے اور پاکستان کرپشن کے حوالے سے عالمی درجہ بندی میں مزید نیچے جارہا ہے۔ وزیراعظم نے کرپشن کے خاتمے کا پختہ عزم کیا اور بقول عمران خان وہ آج بھی کرپشن کے حوالے سے عدم برداشت کی پالیسی پر کاربند ہیںلیکن اس کے باوجود پاکستان میں کرپشن کا گراف بڑھتا جارہا ہے۔

کرپشن پاکستان معاشرے میں ایک ناسور کی شکل اختیار کرچکی ہے، اعلیٰ سیاسی قیادت سے لیکر پٹواری تک، کونسلر سے لیکر ٹھیکیدار تک کوئی بھی کرپشن کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔کرپشن کوئی عام بیماری نہیں ہے بلکہ یہ چھوت کی بیماری ہے جو ایک سے دوسرے کو لگتی ہے، دوسرے سے تیسرے کو اور یوں ایک مسلسل عمل کے ذریعے پورے معاشرے میں پھیلتی چلی جاتی ہے اور پھر پورے معاشرے کو نگل لیتی ہے۔

دنیا میں کرپشن کو ایک سنگین بیماری سمجھ کر اس کا علاج کیا جاتا ہے تاکہ آئندہ کیلئے اس بیماری سے بچاؤ بھی ممکن ہوسکے۔ اگردنیا کی بات کی جائے تو فرانس دنیا کا ایک بہت بااثر ملک ہے لیکن کرپشن ثابت ہونے پرسابق صدر نکولس سرکوزی کو 3 سال قید کی سزا سنائی جاچکی ہے جو ایک ادنیٰ مثال ہے جبکہ اس کے علاوہ بھی دنیا میں کرپشن کرنیوالوں کو سزائیں دینا معمول کی بات ہے لیکن پاکستان میں اس کے برعکس ہوتا ہے۔

اس وقت اگردیکھا جائے تو سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزرائے اعظم نواز شریف، راجہ پرویز اشرف، یوسف رضا گیلانی اور شجاعت حسین کا نام بھی نیب کے زیر تفتیش مقدمات میں شامل ہے، خیبرپختونخوا کے سابق وزیراعلیٰ اور موجودہ وزیردفاع پرویز خٹک جبکہ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اوورسیز پاکستانی زلفی بخاری اور بابر اعوان کا نام بھی شامل ہے، جہانگیر ترین بھی نیب کے زیرتفتیش بااثر شخصیات میں شامل ہیں۔

سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ کی بھی تحقیقات کی جا رہی ہیں جبکہ سابق وزیر بابر اغوری، ڈاکٹر عاصم حسین،آغا سراج درانی، سہیل انور سیال، وسیم اختر، جام خان شورو، پیر صبغت اللہ راشدی، سابق آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی ،شہباز شریف، چوہدری پرویز الٰہی، اسحاق ڈار، خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف، شوکت ترینکے خلاف بھی تحقیقات جاری ہیں۔

نواب محمد تالپور، تیمور محمد تالپور، امیر مقام، عاصمہ عالمگیر، طارق فضل چوہدری، آغا سراج درانی، رؤف صدیقی، شرجیل میمن، ضیا لنجار، عادل صدیقی، اعجاز جاکھرانی، لیاقت جتوئی، سابق چیف سیکریٹری صدیق میمن کیخلاف بھی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔اومنی گروپ کے انور مجید ،نور نمرمجید اور سارا ترین مجید جعلی اکاؤنٹس کیس جبکہ اداکارہ ایان علی منی لانڈرنگ کے مقدمات میں ملوث رہی ہیں۔آفتاب شیرپاؤ، امیر حیدر ہوتی، میر منور تالپور، ایم این اے افتخار شاہ، ایم این اے رانا اسحاق اور کے پی کے وزیر تعلیم سردار حسین بابک اور اسپیکر اسد قیصر کرپشن کے مقدمات ختم کرانے والوں میں شامل ہیں۔

پاکستان میں کرپشن کو ایک فیشن سمجھا جاتا ہے اورپاکستان میں ایک المیہ یہ بھی ہے کہ نظام کی پیچیدگیوں کا فائدہ اٹھاکر اکثر کرپشن کے خاتمے کیلئے مامور افسران ہی لوگوں کو کرپشن پر مجبور کررہے ہوتے ہیں اور ان کو آسان راستہ دکھا کر کرپشن کی راہ ہموار کرتے ہیں۔سیاسی مداخلت کی وجہ سے نیب ایک ناکارہ ادارے میں تبدیل کر دیا گیا جہاں ریاستی اور عوامی وسائل کو لوٹنے والوں کو ایک مخصوص رقم بطور ہرجانہ ادا کر کے باقی دولت کاجائز حقدار ہونے کا سرٹیفکیٹ دیدیا جاتاہے۔

وزیر اعظم عمران خان کرپشن کے خاتمے کو پہلی ترجیح سمجھتے ہیں تاہم وہ کرپشن مقدمات کی سست رفتار تحقیقات پر کئی بار اپنے تحفظات ظاہر کر چکے ہیں تاہم پی ٹی آئی کے اپنے وزراء اور اراکین کیخلاف کسی قسم کی کارروائی عمل میں نہیں آئی، آٹا، چینی، تیل ،ادویات کی مصنوعی قلت اور گرانفروشی میں ملوث جہانگیر ترین، خسرو بختیار،عامر محمود کیانی اور دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں پر سنگین کرپشن کے الزامات عائد ہوچکے ہیں لیکن موجودہ حکومت کا سارا زور صرف مخالفین کو دبانے تک محدود نظر آرہا ہے۔

ملک میں کرپشن ختم کرنے کی کوششیں کہاں تک کامیاب ہوں گی اور کون کون گرفت میں آئیگاتو وقت ہی بتائے گا لیکن اگر حکومت واقعی کرپشن ختم کرنے کیلئے سنجیدہ ہے تو بلاتفریق احتساب دکھائی دینا چاہیے۔ملک میں غربت ، بیروزگاری اور مہنگائی کے ہاتھوں لوگ خودکشیاں کررہے ہیں ، کرپشن میں اضافہ ہورہا ہے لیکن کرپشن اور مہنگائی کے ذمہ داران کیخلاف کوئی کارروائی نہیں ہورہی تو ایسے میں وزیراعظم عمران خان کی جانب سے کرپشن کے خاتمے اور ریاست مدینہ طرز کی ریاست کی تشکیل کے دعوئے محض سیاسی بیانات تو ہوسکتے ہیں حقیقت نہیں۔

Related Posts