وفاق المدارس کے نام کھلا خط اور نئے بورڈز والوں سے کھلی باتیں

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Open letter to the wafaq ul Madaris

 برادر گرامی مولاناعزیزالرحمٰن عظیمی جامعہ بنوریہ کے استاذ اور سوشل میڈیا کے ایک اچھے لکھاری ہیں،میری ان سے ملاقات تو نہیں لیکن ان کی جو تحریریں نظر سے گزریں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک باصلاحیت انسان ہیں اگرچہ حالات کے جبر اور ان کے استاذ زادوں نے انھیں ایک مشکل صورتحال سے دوچار کر دیا ہے لیکن وہ ایک صائب الفکر انسان لگتے ہیں۔

مولانا نے وفاق المدارس کے نام ایک کھلا خط لکھا ہے جوآج کل سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے اس کے بارے میں فیصلہ تو اکابر وفاق نے کرنا ہے کہ وفاق المدارس کھلے خطوط کا جواب دیتا ہےیا بند خطوط کا اور باضابطہ طور پر اس خط کے بارے میں کیا کہا جائے گا؟ چونکہ اس خط کے بارے میں سوشل میڈیا پرحسب معمول بحث و مباحثہ اور مکالمہ کا سلسلہ جاری ہے ،دیگر رفقاء کی طرح اس خط پر کمنٹ کرنے لگا تو خیال آیا کہ ادھورے اور مختصر کمنٹ سے شاید بات واضح نہیں ہوگی اس لئے اس موضوع پر قدرے تفصیل سے لکھا جائے ۔

میرے لیےسب سے زیادہ خوش کن اور حوصلہ افزا بات اس خط پر آنے والے نوجوانوں اور مدارس سے وابستہ صارفین کے کمنٹس ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا کے عام صارفین کے شعور کی سطح کافی بہتر ہے۔

لوگ معاملات کو درست تناظر میں دیکھتے اور حقیقی پس منظر کو سامنے رکھ کر ان کا جائزہ لیتے ہیں اور محض “ہمدردی کارڈ” کے استعمال کا “شکار” نہیں ہوجاتے۔

اگرچہ مولانا کے خط پر انجمن ستائش باہمی اور ففتھ جنریشن وار بریگیڈ کے کچھ مہربانوں کے تبصرے بھی ہیں لیکن عمومی طور پر اکثر لوگوں نے انہیں یہی کہا کہ جامعہ بنوریہ کو وفاق المدارس میں واپس آ جانا چاہیے، وفاق المدارس اور اکابر کو دوش دینے کے بجائے اگرمولاناعزیزالرحمٰن اور ان کے رفقاء اپنے شہزادگان کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی پر آمادہ کر سکیں تو زیادہ بہتر ہوگا،جامعہ بنوریہ کے حق میں بھی اور وفاق المدارس کے حق میں بھی،طلبہ کا مستقبل بھی اسی صورت محفوظ ہوگا بلکہ تمام مدارس،مدارس کا مثالی نظام اوراس خطے کی دینی اقدار وروایات کی بقاء بھی اسی میں ہے۔

کچھ اصولی باتیں سمجھ لیجئے
1) وفاق المدارس کے دروازے ہی نہیں بلکہ اکابر وفاق کے دل اور سینے بھی کھلے اور کشادہ ہیں اور وفاق کے بچے جب بھی گھر لوٹ کر آنا چاہیں گے وہ ان دروازوں اور سینوں کو سدا کھلا پائیں گے۔مفتی نعمان نعیم صاحب اور برادر عظیمی صاحب نے اپنی انتظامی اور تدریسی زندگی میں بارہا ایسا کیا ہوگا کہ مدرسہ چھوڑ کر چلے جانے والوں کو احساس ہو جانے کے بعد واپس لوٹ آنے کی صورت میں داخلہ نہیں دیا ہوگا یا نئے تعلیمی سال کے آغاز اور داخلہ کھلنے کے وقت کے انتظار کا کہا ہوگا اور وہ بھی ان طلبہ کو جنہوں نے مدرسہ کا کوئی نقصان نہ کیا ہو یا کسی کے ہاتھوں استعمال نہ ہوئے ہوں صرف مدرسہ چھوڑ کر چلے جانے پر جامعہ بنوریہ ہی نہیں سب مدارس ایسا کرتے ہیں لیکن وفاق المدارس ایسا نہیں کر رہا۔

وفاق المدارس اپنے رفقاء کو واپس گھر لوٹ آنے کی دعوت دے رہا ہے اور باربار دے رہا ہے،یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ دارالعلوم زکریا اسلام آباد میں وفاق المدارس کے تاریخی اور انتخابی اجلاس میں مولانا محمد حنیف جالندھری نے تمام اکابر کی موجودگی میں پالیسی بیان کے طور پر کہا کہ “ہمارے دروازے کھلے ہیں،ہمارے بھائی جب لوٹ کر آنا چاہیں ہم خیرمقدم کریں گے” اور لاہور اجلاس کے موقع پر مولانا جالندھری نے آبدیدہ ہو کر کہا تھا”آج ہماری مثال اس ماں جیسی ہے جس نے اس وجہ سے اپنے بچے سے دستبرداری کا اظہار کر دیا تھا کہ اس بچے کے دو ٹکڑے نہ کیے جائیں بھلے جھوٹی عورت کے حوالے کر دیا جائے۔

ہم آج اپنی آنکھوں سے وفاق کے ٹکڑے ہوتے نہیں دیکھ سکتے”اس لیے مولانا عزیز الرحمان دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ جامعہ بنوریہ کے کتنے حضرات شروع سے لے کر آج تک صاحبزادگان کے فیصلے کے ساتھ ہیں؟۔

میں ذاتی طور پر جامعہ بنوریہ کے کئی وابستگان سے مل چکابالخصوص حضرت مولانا مفتی محمدنعیم صاحب رحمہ اللہ کے معتمدین اور رفقاء صاحبزادگان کے فیصلوں پر بالکل راضی نہیں ہیں اور ان کے بقول صرف ان دو بھائیوں کے علاوہ جامعہ بنوریہ کا کوئی استاد اور انتظامیہ کا کوئی رکن بھی ان کے فیصلے سے متفق نہیں تو پھر براہ مہربانی تھوڑی سی اخلاقی جرات پیدا کیجیے اور جنہیں سمجھانے کی ضرورت ہے،جنہیں طلبہ کے حال پر رحم کھانے پر آمادہ کرنے کی حاجت ہے،جہاں محنت کرنے کی ضرورت ہے وہاں محنت کیجئے،وفاق المدارس کے نام “ماتمی خطوط” لکھنے سے زیادہ ضروری ہے کہ اپنے گھر کی خبر لیجیے اور ٹھنڈے دل و دماغ سے آج بھی سوچیے کہ اس فیصلے کے نتیجے میں” کیا کھویا؟اورکیا پایا؟”۔

2) طلباء کے “ہمدردی کارڈ” کے حوالےسےتمام قارئین کے سامنے یہ بات واضح رہے کہ وفاق المدارس نے تعلیمی سال کے آغاز سے قبل ہی اپنے فیصلے اور پالیسی کا اعلان کرنا جہاں دیگر کہیں وجوہات کی بنا پر ضروری سمجھا تھا وہیں ایک بڑی وجہ طلباء اور ان کے والدین بھی تھے کہ وہ وفاق مدارس کا ضابطہ،پالیسی اور نوشتہ دیوار پڑھ لیں۔

نئے تعلیمی سال میں داخلہ ہی وفاق المدارس سے ملحقہ کسی ادارے میں لیں۔ چنانچہ بنوری ٹاؤن سمیت کراچی کے دیگر مدارس میں سب سے زیادہ تعداد میں جن طلبہ کوترجیحی اور رعایتی بنیاد پر داخلے دیئے گئے وہ انہی مدارس کے طلبہ تھے جن کی انتظامیہ اجتماعیت اور اتحاد ویکجہتی کی فصیل میں شگاف ڈالنے کی مرتکب ہوئی ہیں بلکہ میری اطلاع کے مطابق کراچی سمیت تمام بڑے مدارس میں طلبہ کو سال کے درمیان میں اوراب بھی داخلے دیئے جا رہے ہیں تاکہ وہ وفاق کا امتحان دے سکیں۔

ان کا تعلیمی کیریئر خراب نہ ہو۔یہ سب کی طرف سے۔اہل مدارس کی طرف سے۔اکابر کی طرف سے اور وفاق کی طرف سے طلباء کے ساتھ خصوصی رعایت ہے لیکن وہ طلباء اور ان کے بہی خواہ ان لوگوں سے ضرور پوچھیں جنہوں نے انہیں اندھیرے میں رکھااور جھوٹی طفل تسلیاں دیتے رہے۔

طلباء کے ساتھ زیادتی کے مرتکب غلط فیصلے کرنے والےاپنی راہیں خود جدا کرنے والے اورطلباء کووفاق المدارس کے داخلے شروع ہونے تک لولی پاپ دینے والے ہیں ۔وفاق المدارس یا اکابر ہرگز نہیں۔

وفاق المدارس کا پرائیویٹ طلباء کے بارے میں فیصلہ اور ضابطہ ہرگز نیا نہیں اور نہ ہی جامعہ بنوریہ یا کسی ایک ادارے کے لیے ہے، بہت سی حکمتوں پر مشتمل یہ فیصلہ عرصے سے وفاق کا ضابطہ ہے-یہ بھی خیال رہے کہ کوئی طالب علم بھی نہ تو وفاق کے امتحان سے محروم رہے گا اور نہ سند سےلیکن اس کے طریقے کے دو ہی ہیں۔

1-جامعہ بنوریہ کی انتظامیہ طلبہ کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی،اکابر سے وابستگی اور اجتماعیت ویکجہتی کامظاہرہ کرتے ہوئے اپنے گھر واپس لوٹ آئے۔

2-وفاق المدارس کے زیر اہتمام امتحانات دینےکے خواہشمند طلباءو طالبات وفاق المدارس سےملحق کسی بھی مدرسے میں باضابطہ داخلہ لے کر وفاق المدارس کے لیے داخلے بھجوا دیں-اس کے علاوہ سب کہانیاں ہیں۔

حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے صدر وفاق کے طور پر انتخاب کے بعد مولانا مفتی نعمان نعیم صاحب اور مفتی فرحان نعیم صاحب کراچی ائرپورٹ استقبال کے لئے تشریف لائے تو یہ امید ہوچلی تھی کہ شاید وہ کوئی درست فیصلہ کریں گے لیکن تاحال خاموشی ہے۔

میری خود بھی بھائی نعمان سے بات ہوئی اور کئی مشترکہ دوستوں کے ذریعے کہلوایا بھی لیکن اس وقت ذرا نیا نیا معاملہ تھا تو بات بن نہیں پائی۔ حضرت مفتی نعیم صاحب رحمہ اللہ علیہ کے ساتھ جو محبت اور خلوص کا تعلق تھا اس کے پیش نظر جب وفاق المدارس کی شکست وریخت کی جسارت کی گئی اس وقت ایک تحریر لکھی”مفتی نعمان نعیم ٹریپ ہوئے یا ڈی ٹریک؟” لیکن پھر شیئر نہیں کی آج بھی مجبوراً اس موضوع پر لکھ رہا ہوں لیکن دلی تمنا ہے کہ کاش! برادرم نعمان نعیم واپس لوٹ آئیں۔

محترم عزیز الرحمٰن عظیمی ہوں یا کوئی اور جامعہ بنوریہ کا خیر خواہ اور مخلص وہ صاحبزادگان کو سمجھائے کہ “موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں”۔

ہمدردی کارڈ استعمال کرنے کے بجائےحقیقت پسندی اور دیانت داری کا مظاہرہ کیجیےیاد رکھیے “لمحوں نے خطا کی تو صدیوں نے سزاپائی”۔

Related Posts