کراچی : ایمپلائز فیڈریشن آف پاکستان کے صدر اسماعیل ستار کا کہنا ہے کہ حکومت کاالیکٹرسٹی مارکیٹ پر دوبارہ غور کرنا خو ش آئند ہے، بجلی کے شعبے میں مسابقت کی فضا پیدا ہوگی ، 1.9 ٹریلین گردشی قرضوں کا بوجھ صارفین پر ڈالنے سے عوام بدحال ہوں گے۔
ایمپلائز فیڈریشن آف پاکستان (ای ایف پی) کے صدر اسماعیل ستار نے پاکستان میں الیکٹرسٹی مارکیٹ پر دوبارہ غور کرنے کے حکومت کے فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے اسے خوش آئند قرار دیا ہے جس سے بجلی کے شعبے میں مسابقت کی فضا پیدا ہوگی اور توانائی کی فراہمی کے سلسلے میں کارکردگی میں بھی اضافہ ہو گا۔
ایک بیان میں انہوں نے کہاکہ سی پی پی اے جی نے 2014 میں اس کے بارے میں سوچا تھا لیکن یہ آئیڈیا سیاسی امور اور معاشی مسائل کے نیچے دب کر رہ گیا تھا تاہم ایک بار پھر اس بارے میں سوچ بچار کرنا بجلی کے شعبے میں معیاری خدمات کی فراہمی میں ایک مثبت اور اہم قدم ثابت ہوسکتا ہے۔
الیکٹرسٹی مارکیٹ ماڈل کے آغاز سے بجلی کے شعبے کے پائیدار مستقبل کی سمت ایک مثبت پیش رفت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ای ایف پی ای ایف پی نے گذشتہ سال 2019 میں وفاقی بجٹ 2019-20 کے لیے اپنی تجاویز میں پہلے ہی گردشی قرضوں کے بحران سے نمٹنے کے لیے ہول سیل الیکٹرسٹی مارکیٹ کے قیام پر زور دیا تھا۔
اسماعیل ستار کا کہنا تھا کہ وبائی مرض بڑھنے سے پیدا ہونے والے حالات میں حکومت کی کسی بھی آنے والی پالیسی فیصلوں میں عوام کی فلاح وبہبود پر توجہ مرکوز ہونی چاہیے اس کے برعکس آئی پی پیز سے جوابدہی کے بغیر بجلی کے نرخوں میں اضافہ انتہائی مایوس کن ہے۔
انہوں نے حکومت کے حالیہ فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جس میںحکومت نے 1.9 ٹریلین گردشی قرضوں کا بوجھ صارفین پر زیادہ نرخوں کی شکل میں ڈالنے کی منظوری دی جو عام آدمی کی پریشانی اور بدحالی میں اضافہ کرے گا۔
حکومت کویہ باور ہونا چاہیے کہ اس وقت تک صورتحال میں بہتری نہیں آئے گی جب تک کہ آئی پی پیز کا فرانزک آڈٹ کو مکمل طور پر نہیں کرایا جاتا۔
صدر ای ایف پی نے کہا کہ آئی پی پیز کے حالیہ مطالبے کے مطابق انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 پر منافع پر ٹیکس سے متعلق پالیسی کے بارے میں پری فنانس بل 2019 ء کی فراہمی کو واپس کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ فرانزک آڈٹ کیے بغیر کسی بھی بات پر اتفاق نہیں کیا جاسکتا۔
انہوں نے وضاحت کی کہ کبھی بھی یہ مقصد نہیں رہا کہ بجلی خریداروں کی حوصلہ افزائی کی جائے بلکہ بجلی پیدا کرنے والوں کے لیے ایک منافع بخش کاروباری ماحول پیدا کرنا تھا۔
انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی پری فنانس بل 2019 کی شقوں میں منافع کا ذکر پاس تھرو کے طور پر کیا گیا ہے لیکن یہ غلط ہے کیونکہ یہ خصوصی ود ہولڈنگ ٹیکس پر لاگو ہوتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھاکہا کہ پاکستان کے پاس اب تک الیکٹرسٹی مارکیٹ نہیں ہے لہٰذا انڈپینڈنٹ پاور پلانٹس ( آئی پی پیز) کو حکومت کی طرف سے مقرر کردہ ریٹ آف ریٹرنز کی تعمیل کرنا ہوگی اور صرف منافع کی شکل میں ادا کی گئی ایکویٹی پر واپسی لازمی ہے جبکہ 7.5 فیصد سے زیادہ ہرجانہ بجلی پیدا کرنے والے سرمایہ کاروں کے لیے خطرہ ہوگا۔
مزید پڑھیں:اوور بلنگ کے بعد کے الیکٹرک نے ایک ماہ میں دو بل بھیجنا شروع کردیئے