بشار الاسد کی گیم کیسے خراب ہوئی؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

دوسرا وآخری حصہ
چوتھے اور پانچویں دن اپوزیشن نے حلب انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر قبضہ کر لیا، جو شامی فوج نے اپنے انخلا کے دوران کردوں کی عسکری تنظیم سوريا الديمقراطية (قسد) کے حوالے کیا تھا۔

اپوزیشن نے مزید کئی اہم مقامات پر بھی قبضہ کر لیا، جیسے ابو الظهور فوجی ایئرپورٹ، کویرس اور منغ ایئرپورٹس اور حلب میں آرٹلری کالج اور فوجی اکیڈمی۔ اس کے بعد اپوزیشن نے شمالی حماہ کے دیہی علاقے میں فوجی آپریشنز شروع کیے اور ادلب کے مکمل کنٹرول کے بعد حلب کے بیشتر علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا۔
یہ اچانک انحطاط اور شامی فوج کے بڑے بڑے علاقوں، شہروں، ایئر پورٹس اور فوجی اڈوں کے سقوط نے سوالات اٹھائے کہ شامی فوج کیوں اس قدر تیزی سے ہار گئی، کیونکہ اس کے پاس نہ تو فضائیہ تھی، نہ ایئر ڈیفنس سسٹم اور نہ ہی مؤثر بکتربند گاڑیاں۔ اس کے علاوہ روسی فضائی حمایت کی کمی اور ایران کی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کا غائب ہونا بھی اس شکست کا ایک اہم سبب بن گیا۔ جس کی مختلف بین الاقوامی، علاقائی اور مقامی وجوہات ہیں، جن میں کچھ حکومت اور اس کے اتحادیوں سے متعلق ہیں، جبکہ کچھ اپوزیشن گروپوں کی حالت اور حکمت عملی سے بھی جڑی ہوئی ہیں۔
یہ واضح ہے کہ یوکرین کی جنگ نے روس کا بیشتر دھیان اپنی طرف متوجہ کیا اور اس نے اپنی زیادہ تر وسائل یوکرین میں جھونک دیئے، حالیہ دنوں میں یوکرین کے خلاف شمالی کوریا کی فوج کی مدد بھی لی گئی۔ اس کا اثر روس کی شامی فوج پر توجہ مرکوز کرنے پر پڑا، حالانکہ طرطوس میں موجود روسی نیول بیس کا مشرقی بحیرۂ روم اور شمالی افریقہ میں روسی توسیعات کے لیے اہمیت ہے، تاہم روس کا سب سے قابل ذکر اقدام ایس 300 ائیر ڈیفنس سسٹم کو شام سے واپس لینا تھا، جس کی حالیہ لڑائیوں میں زیادہ ضرورت بھی نہیں تھی، اس کے ساتھ روس نے شام میں اپنے تمام بہترین پائلٹس کو یوکرین بھیج دیا تھا۔ اسی دوران کچھ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ روس نے شام میں اپنی جنگی طیاروں کی تعداد بھی کم کی ہے، لیکن اس کا کوئی واضح اثر اس وقت نظر نہیں آتا۔ لندن کے مرکز برائے بین الاقوامی اور اسٹرٹیجک مطالعات کی 2022 اور 2024 کی رپورٹس کے مطابق شام میں روس کے 10 “سخوئی 24” طیارے، 6 “سخوئی 34” طیارے اور 6 “سخوئی 35” طیارے موجود ہیں۔
جنگی نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بہت سے سپاہی اس وقت تک لڑتے ہیں جب تک انہیں تنخواہیں ملتی رہیں اور جب تک وہ سمجھتے ہیں کہ وہ جیت سکتے ہیں، کیونکہ ان کے لیے لڑائی ایک ماہانہ تنخواہ ہے، نہ کہ ایک ایسی جدوجہد جس کے لیے وہ اپنی زندگی قربان کریں۔ یہ بات امریکی انسپکٹر جنرل کی رپورٹ میں بھی آئی تھی، جو افغانستان کی حکومت کی فوجوں کے طالبان کے ہاتھوں 2021 میں شکست کے اسباب پر مبنی تھی۔ اسی طرح کے عوامل نے شامی حکومتی فوج کی پسپائی میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ اس کے ساتھ تربیت کا ناقص معیار، فضائی حمایت کی عدم موجودگی میں لڑنے کی محدود صلاحیت، کرپشن کا پھیلاؤ جس سے فوجی نظم و ضبط متاثر ہوا اور لڑائیوں کے دوران “ملیشیائی” ثقافت کی ترویج، جس نے فوجی کنٹرول اور کمانڈ کو کمزور کر دیا۔ اس کے علاوہ جنگ کے دوران کئی افسران اور سپاہیوں کا بغاوت کرنا اور فوجی اراکین کا یہ احساس کہ وہ ایسے نظام کے لیے لڑ رہے ہیں جو ان کی پروا نہیں کرتا، ان تمام عوامل نے فوج کے مورال کو متاثر کیا۔ وقت کے ساتھ جب سپاہیوں میں شکست اور فرار کا احساس گہرا ہوتا ہے اور لڑائی سے کوئی اُمید نہیں ہوتی، تو یہ مزید انحطاط کا سبب بنتا ہے اور کنٹرول کا فقدان بڑھتا جاتا ہے۔ آخرکار یہ صورتحال ایک مضبوط دفاعی لائن یا دوست ممالک کی مداخلت کے ذریعے قابو کی جاتی ہے، جو حملہ آوروں کو روک کر فوج کو منظم کرنے کا موقع دیتے ہیں۔ یہی امید شامی حکومت کو ہے کہ وہ حماہ کی دفاعی لائن پر خاص طور پر قمحانہ کے علاقے میں، ایسا کر سکے، جہاں پانچویں دن چیف آف اسٹاف نے اس علاقے کا دورہ کیا تھا اور اسی دوران دمشق نے ماسکو، تہران، اور بغداد سے مزید حمایت طلب کی۔
لیکن یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ حلب اور ادلب میں شامی حکومت کی فوج کی پسپائی صرف اس کے داخلی عوامل اور اس کے اتحادیوں کی وجہ سے ہوئی، بلکہ اس میں ایک اور اہم عنصر وہ ہے جو حملہ آور فریق، یعنی اپوزیشن سے متعلق ہے۔ جب شامی حکومت کی آخری فوجی کارروائی 2020 میں آزاد شدہ علاقوں پر ہوئی، تو اس کے بعد اپوزیشن فوج نے شکست کے اسباب کا مطالعہ شروع کیا اور ان مشکلات کو دور کرنے پر کام کیا گیا، جن میں سب سے اہم قیادت اور کنٹرول میں کمزوری، اور فوجی فیصلوں کے مرکز میں انتشار تھا۔ اس کے بعد 2019 میں قائم ہونے والی “غرفة عمليات الفتح المبين” نے ادلب میں مختلف اپوزیشن گروپوں کے درمیان فوجی کارروائیوں میں ہم آہنگی بڑھائی اور میدان میں منصوبہ بندی اور سرگرمیوں میں ہونے والی الجھنوں اور افرا تفری کو کم کرنے کی کوشش کی۔ اس کے علاوہ فوجی امور کو منظم بنانے کی کوششیں بھی کی گئیں، جن میں فوج اور پولیس کے لیے تعلیمی ادارے قائم کرنا بھی شامل تھا، جن کے نصاب کو شامی میدانِ جنگ کے تقاضوں کے مطابق ترتیب دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ مقامی طور پر فوجی ساز و سامان تیار کرنے پر زور دیا گیا، جس کا عملی مظاہرہ اس وقت ہوا جب “شاہین” بریگیڈ نے ڈرونز کے ذریعے لڑائی کی مہارت کا مظاہرہ کیا، جس کی بدولت اپوزیشن نے حلب کے النیرِب ایئر پورٹ پر شامی حکومت کے ہیلی کاپٹروں کو نشانہ بنایا، حماہ کے فوجی سیکورٹی چیف کو ہلاک کیا اور اہم فوجی مقامات، ساز و سامان اور سپاہیوں پر حملے کیے، جس سے حکومت کی فوج میں افراتفری پھیل گئی۔
اس کے علاوہ رات کے وقت لڑائی کو مؤثر انداز میں جاری رکھنے کے لیے مخصوص ہتھیاروں کا استعمال بڑھا دیا گیا، جس سے آپریشنز کی کارکردگی میں اضافہ ہوا اور انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر خاص نوعیت کی کارروائیاں کی گئیں، جیسے وہ حملہ جس میں ایرانی مشیروں کے سربراہ کیومرث بورہاشمی کو حلب میں مارا گیا۔
“رد العدوان” کی لڑائی نے اپوزیشن فورسز میں پیشہ ورانہ مہارت کو واضح کیا ہے، جو اس سے پہلے کی لڑائیوں میں اکثر افراتفری کا شکار رہتی تھیں۔ اس لڑائی کے دوران نفسیاتی کارروائیاں بھی کی گئیں، جن میں شامی فوج کے افسران اور سپاہیوں کو پمفلٹس اور بیانات کے ذریعے شامی حکومت کے خلاف بغاوت اور اپوزیشن صفوں میں شمولیت کی ترغیب دی گئی اور سوشل میڈیا پر پیغامات بھیجے گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی پیغام دیا گیا، جس میں مذہبی اور نسلی اقلیتوں کو جان و مال کے تحفظ کی مکمل ضمانت دی گئی۔
ان اقدامات کے مثبت نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ اپوزیشن فورسز کا حملہ مسلسل جاری ہے، اس نے شامی فوج پر دباؤ ڈال دیا ہے اور اسے فرار ہونے پر مجبور کر دیا ہے، جبکہ فوجی رہنما حماہ کی دفاعی لائن کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور عراق، ایران اور روس سے کمک کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس دوران ادلب اور حلب میں شہری علاقوں پر فضائی بمباری جاری ہے تاکہ شہریوں کو نقصان پہنچایا جا سکے اور اپوزیشن پر دباؤ بڑھایا جا سکے۔
شام کوئی عام ملک نہیں ہے، بلکہ یہ ایک اسٹرٹیجک اہمیت کا حامل خطہ ہے۔ اس کی اہمیت کو سابق مصری صدر جمال عبد الناصر کے سکریٹری اطلاعات سامی شرف نے اپنی یادداشتوں کے پہلے حصے میں یوں بیان کیا: “انگلینڈ کا خیال تھا کہ شام اس خطے کی کنجی ہے اور اردن اور لبنان کا مقدر شام میں سے وابستہ ہے۔” اسی طرح شام روس کے لیے ایک ایسا نقطہ ہے جہاں سے وہ مشرقی بحیرۂ روم اور شمالی افریقہ میں اپنے فوجی آپریشنز کی مانیٹرنگ کرتا ہے اور ایران کے لیے یہ ایک ایسا اہم راستہ ہے جو اسے لبنان تک پہنچاتا ہے۔ اگر یہ راستہ منقطع ہو جائے تو ایران کو اپنی سرحدوں تک محدود ہو جانا پڑے گا۔ اسی وجہ سے لبنان میں ایرانی سفیر نے کہا کہ “ایران، روس اور مزاحمتی محور شام میں گزشتہ برسوں کے واقعات کا اعادہ ہونے نہیں ہونے دیں گے اور تہران دمشق کو درکار حمایت فراہم کرے گا۔” اور اس بات پر ایرانی صدر نے بشار الاسد سے رابطہ میں بھی زور دیا۔
اسی طرح عراقی حکومت شام میں اپوزیشن فورسز کے دوبارہ اُبھرنے کے اثرات سے پریشان ہے، خاص طور پر اس کے داخلی سطح پر سنی عوام پر اس کے اثرات کے بارے میں فکر مند ہے، جبکہ کئی عرب ممالک اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ “انقلابی” مسلح فورسز کا عرب حکومتوں کے خلاف کامیاب ہونا، شاید دوسرے ممالک میں بھی ان تجربات کو تحریک دے سکتا ہے۔ اسرائیل بھی اس صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے، کیونکہ وہ ایرانی اثرو رسوخ کو کسی دوسرے مسلح اسلامی گروہ سے تبدیل کرنا نہیں چاہتا۔ واشنگٹن بھی حالات پر نظر رکھ رہا ہے، کیونکہ اس کی فورسز “قسد” کے زیر کنٹرول علاقوں میں موجود ہیں، جنہیں حلب کے کچھ حصوں خاص طور پر تل رفعت سے انخلا کرنا پڑا ہے تاکہ وہ محاصرے سے بچ سکیں۔ ترکی بھی محتاط انداز میں حالات پر نظر رکھے ہوئے ہے، کیونکہ یہ حملہ اس کے مفاد میں آیا ہے، لیکن اس نے شام کی اسد حکومت کے ساتھ تعلقات کے معمول پر آنے کی کوشش کی تھی جو ناکام رہی۔
مذکورہ حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ کئی فریقوں کے مفادات اسد حکومت کی بقا میں ہیں، جبکہ کچھ فریق ایسے بھی ہیں جو اپوزیشن کے مزید آگے بڑھنے کے مخالف ہیں۔ اس لیے اسدی حکومت کی حمایت میں مداخلت اور اس کی صفوں کو دوبارہ منظم کرنے کے لیے جوابی حملے کا امکان باقی ہے۔ تاہم جو کچھ ہوا ہے وہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ اسد حکومت اس قدر کمزور ہے کہ اس کی فتح پر بھروسہ ایک دھوکہ تھا۔ بیساکھیوں کے بغیر اسے زیادہ عرصہ برقرار رکھنا آسان نہیں ہوگا۔

Related Posts