شامی حزبِ اختلاف کی مسلح جماعتوں نے شمالی شام کے علاقے اِدلب سے شروع ہونے والی “ردع العدوان” (جارحیت کا مقابلہ) نامی عسکری مہم جاری رکھی ہوئی ہے، جس نے چند دنوں میں میدانِ جنگ میں قابلِ ذکر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
ان طوفانی اور ڈرامائی فتوحات میں ملک کے دوسرے سب سے اہم اور تاریخی شہر حلب پر قبضہ بھی شامل ہے۔ حلب اور ادلب پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے بعد حمص اور حماہ سمیت دیگر اہم شہروں کی طرف تیزی سے پیش قدمی جاری ہے اور اپوزیشن اتحاد کے سامنے شامی سیکورٹی فورسز ریت کی دیوار ثابت ہو رہی ہیں۔ روسی فوج نے حماہ کا ایئربیس پہلے ہی خالی کردیا ہے۔ ردع العدوان نامی یہ عسکری مہم 27 نومبر کی صبح شروع کی گئی اور اس کا مقصد ادلب کے گرد موجود حکومتی افواج کے خلاف پیشگی حملہ کرنا تھا۔ یہ حملہ 2020ء کے ترک-روسی معاہدے کے تحت حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان قائم حد بندی لائنز پر کیا گیا ہے۔
شرکاء کون ہیں؟
کارروائی کی قیادت ایک مشترکہ کمانڈ سینٹر “فوجی کارروائیوں کی انتظامیہ” کے تحت کی جا رہی ہے۔ اب تک درج ذیل گروہ اس میں شامل ہیں:
1. ہیئت تحریر الشام :
شمالی شام میں یہ سب سے نمایاں مسلح گروہوں میں شامل ہے۔ یہ تنظیم مختلف جہادی نظریات رکھنے والے گروہوں کے انضمام سے بنی ہے اور ابتدا میں اسے “جبهة النصرة” کہا جاتا تھا۔ یہ پہلے القاعدہ سے وابستہ تھی، لیکن 2016ء میں اس سے الگ ہو کر ایک نیا گروہ تشکیل دیا۔ یہ ادلب کے زیادہ تر علاقوں پر قابض ہے اور وہاں اپوزیشن کے تحت قائم حکومت “حكومة الإنقاذ السورية” کے ذریعے انتظامات کرتی ہے۔
2: حرکتِ احرار الشام:
یہ تنظیم اسلامی مسلح گروہوں کے انضمام سے بنی، جن میں کتائب احرار الشام، حرکت الفجر، جماعة الطلیعة اور کتائب الإيمان المقاتلة شامل ہیں۔ یہ گروپ ادلب اور حلب کے دیہی علاقوں میں سرگرم ہے۔
3: الجبهة الوطنية للتحرير:
یہ شامی آزاد فوج (Free Syrian Army) سے منسلک ایک فوجی اتحاد ہے، جس میں سابقہ حکومتی فوج کے منحرف فوجی اور نئے رضاکار شامل ہیں۔ اس میں الفرقة الساحلية الأولى، الجيش الثاني، لواء شهداء الإسلام اور دیگر مسلح گروہ شامل ہیں۔ اس اتحاد کے پاس ہزاروں تربیت یافتہ جنگجو ہیں۔
4. الجيش الوطني السوري:
یہ ترکی کی حمایت یافتہ عسکری گروہوں پر مشتمل عسکری تنظیم ہے، جو 2017ء میں قائم ہوئی۔ اس کی قیادت شامی اپوزیشن کی عارضی حکومت کے تحت ہے۔ یہ گروپ ترکی کی جانب سے کرد ملیشیا کے خلاف کارروائیوں میں بھی شامل رہا ہے تاکہ ترکی کے سرحدی علاقے کو محفوظ بنایا جا سکے۔
5. کتائب نور الدين زنکی:
یہ اسلامی گروپ شامی انقلاب کی رہنمائی کونسل کا حصہ ہے۔ یہ “حركة احرار الشام” کے ساتھ اتحاد میں شامل ہو کر “جبهة تحرير سوريا” کہلاتا ہے۔
یہ تمام گروہ شامی حکومت کے خلاف ایک منظم اور مشترکہ کارروائی کا حصہ ہیں، جو ادلب اور اس کے ارد گرد کے علاقے میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اہم کامیابیاں:
1. الفوج 46 نامی چھائونی پر قبضہ:
حزب اختلاف نے حکومت کے ابتدائی اور اہم ترین فوجی مقامات میں سے ایک الفوج 46 پر قبضہ کر لیا۔ یہ مقام ادلب اور حلب کے دیہی علاقوں کے درمیان ایک مرکزی رابطہ پوائنٹ پر واقع تھا اور ایک بلند پہاڑی پر واقع ہونے کے باعث اسٹرٹیجک اہمیت رکھتا تھا۔ یہ شامی فوج کے لیے ایک مضبوط قلعہ سمجھا جاتا تھا، جس میں توپ خانے اور راکٹ لانچرز جیسے جدید ہتھیار موجود تھے۔
2. ادلب کے دیہی علاقوں پر قبضہ:
حزب اختلاف نے ادلب کے دیہی علاقوں پر مکمل قبضہ کر لیا ہے، جہاں حکومتی دفاعی چوکیوں اور فوجی مراکز تیزی سے اس کی جھولی گر گئے۔ شامی فوج کوئی خاص مزاحمت کیے بنا وہاں سے پسپا ہو گئی اور حزب اختلاف نے درجنوں دیہاتوں میں بڑی تعداد میں فوجی سازو سامان، جیسے کہ ٹینک، بکتر بند گاڑیاں، میزائل، گولہ بارود اور مختلف قسم کے ہتھیار ضبط کر لیے۔
3. حلب کے مغربی دیہی علاقے پر قبضہ:
ادلب کے مشرقی دیہی علاقوں کے مکمل سقوط کے بعد حزب اختلاف نے حلب کے مغربی دیہی علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا، جس سے شہرِ حلب میں داخل ہونے کی راہ ہموار ہوئی۔ اس کے نتیجے میں شامی فوج کی پوزیشنز میں مسلسل بگاڑ پیدا ہوا اور افواج نے بڑے پیمانے پر پیچھے ہٹنا شروع کر دیا۔
4۔ حلب شہر پر حملہ اور قبضہ:
حزب اختلاف نے حلب شہر کے مغربی علاقوں پر قبضہ کر لیا، جس میں یہ اہم مقامات شامل ہیں: قلعہ حلب، سعد الدین جابری اسکوائر، صنعتی علاقہ، حلب بین الاقوامی ہوائی اڈہ، ابو الظہور ملٹری ایئرپورٹ۔ مزید برآں حزب اختلاف نے شہر کے گردو نواح کے دیہاتوں پر بھی قبضہ کر لیا۔ جبکہ راموسہ توپ خانے، عسکری اکیڈمی، گورنر ہاؤس، صوبائی پولیس ہیڈکوارٹر اور دیگر اہم سیکورٹی مقامات، جیسے کہ سیاسی انٹیلی جنس ہیڈکوارٹر پر بھی کنٹرول حاصل کر لیا۔
یہ کامیابیاں حزب اختلاف کی کارروائی کے دوران شامی حکومت کے لیے بڑے نقصانات کا باعث بنی ہیں۔
حماہ کی طرف پیش قدمی:
حزب اختلاف نے حماہ کے شمالی دیہی علاقوں میں کئی دیہات پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس دوران حکومت کی افواج جلد بازی میں پیچھے ہٹ گئیں، جس کے نتیجے میں وہ اپنے گولہ بارود کے ذخائر، میزائل، راکٹ لانچرز، ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں چھوڑ کر فرار ہو گئیں۔ یہ سب کچھ حکومتی افواج کے اندر پیدا ہونے والے انتشار کے باعث ہوا اور اپوزیشن نے ان سب کچھ مال غنیمت بنالیا۔ اب حزب اختلاف کی فورسز نے حماہ کے مرکز کی طرف پیش قدمی شروع کی ہے اور متعدد دیہات پر کنٹرول حاصل کر لیا۔ حکومت نے شہر کے وسط میں اپنی افواج کو اکٹھا کرنا شروع کر دیا، تاکہ حزب اختلاف کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے بڑے پیمانے پر دفاعی لائنیں قائم کی جا سکیں۔
حزب اختلاف کا جدید اسلحہ:
تیز رفتار بکتر بند گاڑیاں: حزب اختلاف کی فوج بھاری ہتھیاروں، جیسے کہ ٹینک اور بکتر بند گاڑیوں کے علاوہ، تیز رفتار بکتر بند گاڑیوں کا بڑے پیمانے پر استعمال کر رہی ہے۔ یہ گاڑیاں نقل و حرکت کے لیے زیادہ مؤثر ثابت ہو رہی ہیں اور بڑی تعداد میں افواج کو محاذ جنگ تک پہنچانے میں کارگر رہیں۔ ان کے اچانک اور تیز رفتار حملہ کرنا ممکن ہوا۔
ڈَرونز طیارے: حزب اختلاف کی طرف سے جدید ڈرونز کا استعمال بھی نمایاں ہے، جن میں سے کچھ مقامی طور پر تیار کیے گئے ہیں۔ ان ڈرونز کو کتائب شاہین نامی ایک یونٹ کے تحت استعمال کیا جا رہا ہے۔ حزب اختلاف نے بھاری وزن کے دھماکہ خیز مواد لے جانے والے ڈرونز بھی تیار کیے ہیں، جنہیں ایک عارضی راکٹ لانچر کے ذریعے فضا میں بلند کیا جاتا تھا۔ یہ ڈرونز تیز رفتاری سے ہدف کی جانب بڑھتے اور وہاں پہنچ کر دھماکے سے پھٹ جاتے ہیں۔ ان طیاروں نے حکومت کے دفاعی مراکز، توپ خانے اور ٹینکوں کی چھاؤنیوں کو پہلی ہی ضرب میں مفلوج کر دیا ہے، جس سے شامی افواج کو فوری پسپائی پر مجبور ہونا پڑا۔ اسے سمجھ ہی نہیں آرہا ہے کہ حزب اختلاف کی جانب سے اچانک یہ افتاد کیسے ٹوٹ پڑی؟ علاوہ ازیں اتحادی گروپ روس-یوکرین جنگ میں استعمال ہونے والے چھوٹے خودکش ڈرونز سے مشابہت رکھنے والے ڈرونز بھی استعمال کر رہا ہے۔ یہ ڈرونز فوجیوں کی پناہ گاہوں، ٹینکوں، بکتربندوں اور ٹرانسپورٹ گاڑیوں پر حملے کے لیے استعمال کیے جار ہے ہیں۔ چھوٹے ڈرونز، جو کہ فوجیوں کو نشانہ بنانے گرانے کے لیے تیار کیے گئے ہیں، شامی سرکاری فوجی کے اجتماعات پر مہلک حملے کرنے میں کامیاب رہے۔ ان طیاروں نے فوجیوں کے علاوہ ٹرانسپورٹ ٹرکوں کو بھی نشانہ بنایا، جس سے وہ تباہ ہوگئے اور افواج کے لیے مزید مشکلات پیدا ہوئیں۔
ڈرونز اور جدید بکتر بند گاڑیوں کے مربوط استعمال نے حزب اختلاف کو شامی افواج کے دفاع کو توڑنے اور تیزی سے آگے بڑھنے میں برتری دی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی میدان جنگ میں فیصلہ کن ثابت ہو رہی ہے اور حکومتی افواج میں انتشار پیدا کرنے میں مددگار ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ اپوزیشن فوج کے پاس ایک فدائی اسکواڈ بھی ہے۔ جمعہ کے روز “دو فدائی کار بم دھماکوں” کے بعد سراقب شہر پر قبضہ کیا۔
ادلب میں “ہیئت تحریر الشام” کی اعلان کردہ “شیڈو حکومت” کے سربراہ محمد البشیر کا کہنا ہے کہ یہ حملہ اس وقت شروع ہوا جب “حکومت (بشار الاسد) نے محاذوں پر اپنی افواج کو جمع کیا اور شہری علاقوں پر بمباری شروع کی، جس کی وجہ سے ہزاروں افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے”۔ حقیقتاً، ان علاقوں پر حالیہ دنوں میں شامی فوج اور اس کے روسی اتحادی کی طرف سے شدید بمباری کی گئی تھی۔ یہ حملہ درحقیقت “ہیئت تحریر الشام” اور آزاد قومی فوج کی جانب سے کئی مہینوں کی تیاری کا نتیجہ ہے، جو ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب شام کے روایتی اتحادی دیگر تنازعات میں مصروف اور بشار حکومت کی غیر معمولی مدد کرنے سے قاصر ہیں۔