پہلا حصہ – ڈاکٹر عبد الرحمن السمیط کویت کے نامور داعی تھے، جن کے ہاتھوں 11 ملین (ایک کروڑ 10 لاکھ) سے زائد افراد نے اسلام قبول کیا۔ پوری اسلامی تاریخ میں یہ اعزاز کسی کو حاصل نہیں۔ وہ جمعیت العون المباشر (Direct Aid)کے بانی تھے۔ چونکہ انہوں نے اس مبارک کام کا آغاز ملاوی میں کیا تھا، اس لیے1981ء میں ابتدا کرتے ہوئے اس ادارے کا نام لجنۃ مسلمی ملاوی رکھا تھا، بعد میں لجنۃ مسلمی افریقہ کردیا، چونکہ وہ بلا تفریق مذہب سب کی خدمت کرتے تھے، اس لیے1999ء میں پھر نام تبدیل کرکے ڈائریکٹ ایڈ کردیا اور یہ افریقہ کا سب سے بڑا رفاہی ادارہ بن گیا، جو اقوام متحدہ کے مطابق 40 ممالک میں خدمات سر انجام دے رہا ہے اور ایڈوائزری اکنامک اینڈ سوشل کونسل سیکشن کے تحت اب یہ اقوام متحدہ کا حصہ ہے۔ کویت کے ایک امیرزادہ کا افریقی صحرائوں میں پوری زندگی گزار دینے کا قصہ بھی عجیب ہے۔
80 کی دہائی کے اوائل میں، ایک کویتی خاتون نے مسجد کی تعمیر کے لیے عطیہ دیا تو عبدالرحمٰن السمیط نے اسے غریب ترین علاقے میں تعمیر کرنے کا مشورہ دیا، جہاں مسجد کی زیادہ ضرورت ہو اور مقامی مسلمان تعمیر سے قاصر ہوں۔ خاتون نے السمیط سے کہا کہ پھر آپ ہی کوئی مناسب جگہ دیکھ کر یہ کام کرلیں، اسی مقصد کے لیے السمیط خود ملاوی پہنچے تو انہوں نے وہاں کے لوگوں کی حالت دیکھی کہ نہایت فقر و فاقے اور کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ انہوں نے سوچا کہ ہم کن نعمتوں اور عیش وعشرت میں ہیں اور یہ بے چارے تو بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہیں تو انہوں نے ملاوی میں مستقل اور منظم بنیادوں پر رفاہی کام شروع کرنے کا عزم کرلیا اور مذکورہ ادارے کی بنیاد رکھی، پھر اللہ نے ان سے وہ کام لیا، جس کی مثال پوری تاریخ میں نہیں مل سکتی۔
اب پورے براعظم افریقہ میں پھیلے اس نیٹ ورک کے ساتھ 700 سے زائد صرف مبلغین جڑے ہوئے ہیں، جو سال بھر تبلیغی قافلوں کو منظم کرتے ہیں، دیہات میں 2000 سے زیادہ قافلے ہر وقت رواں دواں رہتے ہیں، اسلامی تبلیغی کورسز سینٹرز، قرآن کریم کے مکاتب، خصوصی پروگراموں کا انعقاد، نومسلموں کے تربیتی مراکز کے علاوہ 840 مدارس قائم ہیں، رفاہی خدمات کا ایک وسیع جال بچھا ہوا ہے۔
انہوں نے دعوتِ دین کے مشن پر زندگی لگا دی، مگر ان کاوشوں کو وہ پھر بھی ناکافی سمجھتے تھے۔ ایک مرتبہ فرمایا کہ امریکا میں قائم عیسائی مشنری کے لیےکام کرنے والی مختلف تنظیموں اور این جی اوز کے تحت 51 ملین سے زائد مبلغین دنیا بھر میں گھوم گھوم کر عیسائیت کو فروغ دینے اور مسلمانوں کو عیسائی بنانے کے لیے سرگرم ہیں۔ 3 لاکھ 65 ہزار کارکن ان مبلغین کا جائزہ لینے کے لیے ہمہ وقت آن لائن رہتے ہیں۔ کتابیں اور دیگر لٹریچر و سامان ان تک پہنچانے کے لیے ہر گھنٹے میں 4 منٹ کے حساب سے 360 سے زائد طیارے پرواز بھرتے ہیں۔ 4050 کلیسا اور ریڈیو چینلز ہیں، جو دن رات عیسائیت کے پرچار میں سرگرم ہیں۔ سالانہ 300 ارب ڈالر عیسائی چرچ اور کلیسا جمع کرکے عیسائی مشنریز کو دیتے ہیں۔ ان کی محنت کا زیادہ تر ہدف افریقہ کے غریب قبائل ہیں۔ اس کے برعکس ہم مسلمان اس میدان میں انتہائی سستی اور غفلت کا شکار ہیں۔
شیخ السمیط نے اپنی زندگی کا ایک انتہائی حسین واقعہ ذکر کرتے ہوئے بتایا: افریقہ میں ایک قبیلہ آباد ہے، جس میں انتہائی درجہ کی غربت اور فقر وفاقہ ہے، اس قبیلے پر عیسائی مشنریز نے 40 برسوں تک کام کیا، اس کی خدمت کی اور 4 ملین ڈالر سے زائد خطیر رقم خرچ کی، لیکن جب ہم وہاں گئے، انہیں دین حق کی دعوت دی اور اپنی استطاعت کے مطابق رفاہی کام کیا تو اس قبیلے کے 98 فیصد لوگوں نے حق کی دعوت سے متاثر ہوکر اسلام قبول کر لیا۔
ڈاکٹر عبد الرحمن السمیطؒ کا شمار دورِ حاضر کی عظیم ترین مسلم شخصیات میں ہوتا ہے۔ وہ ایک مردِ مجاہد تھے۔ وہ کویت کے ایک رئیس گھرانے میں پیدا ہوئے۔ بچپن سے ہی ملنسار اور دوسروں کے دکھ درد کو سمجھنے والے رقیق القلب انسان تھے۔ اگرچہ تعلیم انہوں نے میڈیکل کی حاصل کی تھی، لیکن اللہ نے ان سے اپنے دین کی خدمت کا محیر العقول کام لیا، وہ اندرونی امراض اور نظام انہضام کے اسپیشلسٹ ڈاکٹر تھے، بغداد یونیورسٹی سے گریجویشن کی، میڈیسن اور سرجری میں بیچلر کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد 1974ء میں برطانیہ کی یونیورسٹی آف لیورپول سے ٹراپیکل ڈیزیز میں ڈپلوما کیا اور پھر کینیڈا کی میک گل McGill یونیورسٹی میں اپنی پوسٹ گریجویٹ تعلیم مکمل کرکے اندرونی امراض اور نظام ہاضمہ میں مہارت حاصل کی۔
وہ ماہر ڈاکٹر بنے، لیکن دوسروں کی مدد کے جذبے نے انہیں اپنے وطن میں عیش و عشرت کی زندگی گزارنے نہیں دیا، انہوں نے کویت کو چھوڑا اور افریقہ کے تپتے ہوئے صحراوں کارخ کیا، پھر وہیں کے ہوکر رہ گئے۔ انہوں نے اسلام کی دعوت اور یتیموں اور بے کسوں کی مدد کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا تھا۔ افریقہ میں دعوت کی تقریباً 29 سالہ مدت میں ان کے ہاتھوں 11 اعشاریہ 2 ملین سے زیادہ افراد نے اسلام قبول کیا۔ یعنی یومیہ وہ اوسطاً 972 افراد کفر کی تاریکیوں سے نجات دلاتے رہے۔
انہوں نے اعلیٰ محلات اور پرکشش ملازمتوں کو چھوڑ کر اسلامی رفاہی اور دعوتی کام سنبھالتے ہوئے اپنی زندگی اس عظیم خدمت کو انجام دیتے ہوئے امت مسلمہ کے پسماندہ طبقہ کے علاج ومعالجہ اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وقف کی لیکن گمنام رہے، کسی نے ان کو نہ جانا نہ پہچانا، کیوں کہ ان کے اندر خلوص کا وہ چراغ روشن تھا، جس سے دل کی دنیا منور ہوتی ہے، ان کو دنیا کی شہرت نہیں چاہیے تھی، ان کا ہر عمل رب کے لیےتھا، اسی لیےتو کبھی کسی اخبار کی زینت بننا گوارا نہ کیا، اگر وہ چاہتے تو میڈیا کا ہجوم ان کے ارد گرد ہوتا۔ ان کے متعلق یہ معلومات بھی ان کے انتقال کے بعد افریقی اخبار اور العربیہ ڈاٹ کام وغیرہ نے مختلف ذرائع سے حاصل کیں۔
ڈاکٹر السمیط کی کہانی میں ہمارے مالداروں، اہل علم ودانش، پروفیشنلز، قائدین اور رہنماوٴں کےلیے یقیناً ایک پیغام ہے۔ شیخ ڈاکٹر عبد الرحمن السمیط 15 اکتوبر 1947ء مطابق 1366ھ کو پیدا ہوئے اور انسانیت کی خدمت کرتے ہوئے 15 اگست 2013ء بمطابق 8 شوال المکرم 1434ھ کو 65 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے افریقہ کی جانب رخت سفر باندھا اور افریقہ کے دور دراز علاقوں اور صحراوں میں رہ کر اسلامی رفاہی ودعوتی کام کرتے رہے، ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اخلاص کی بدولت 11 ملین سے زائد افراد بر اعظم افریقہ کے مختلف ممالک میں حلقہ بگوش اسلام ہوئے اور رستم ایران کے دربار میں سفیر فاروقی حضرت ربعی بن عامرؓ کی اس تقریر کی جیتی جاگتی تصویر پیش کی کہ ”اللہ نے ہمیں مبعوث کیا کہ ہم لوگوں کو بندوں کی بندگی سے نکال کر ایک رب کی بندگی وغلامی میں ڈالیں اور ادیان ومذاہب کے ظلم وجور سے نکال کر اسلام کے عدل وانصاف کی طرف لے جائیں۔“
شیخ عبد الرحمن السمیط سے اکثر لوگ سوال کرتے کہ وہ کویت میں عیش وعشرت چھوڑ کر افریقہ کے جنگلوں میں کیوں زندگی گزار رہے ہیں؟ تو وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے: ”ایمان کی جو حلاوت مجھے یہاں میسر آتی ہے اگر حکمران تھوڑا سا بھی وہ مزہ چکھ لیں تو وہ اپنے محلات چھوڑ کر یہ کام شروع کردیں۔“
ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ میں افریقہ میں دعوتی مہم کے دوران ایک دن کھڑا تھا کہ میں نے ایک افریقی عورت کی آہ وبکا سنی، جو چھوٹے بچوں کے ایک ڈاکٹر سے گریہ کر رہی تھی اور اسے واسطے دے رہی تھی۔ میں اُس کے اصرار کی شدت اور اپنے مطلب (کو منوانے) کی پختگی سے بہت متاثر ہوا۔ میں نے ڈاکٹر سے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے؟ اُس نے کہا: اس عورت کا دودھ پیتا بیٹا جسے ہم نے مردہ قرار دے دیا ہے اور یہ نہیں سمجھ رہی، یہ چاہتی ہے کہ میں اس کے بیٹے کو اُن بچوں کے ساتھ رکھوں، جن کا علاج کیا جانا ہے اور جو پیسے ہم اس پر خرچ کریں گے، اُس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اس کا بیٹا گنتی کے چند ایام ہی جیے گا، یہ پیسے اسی بچے پر خرچ کرنا ہی مناسب ہے، جس کا علاج ممکن ہو۔
ڈاکٹر سمیط کہتے ہیں: وہ عورت میری طرف رحم کی نظروں سے دیکھ رہی تھی، جبکہ ڈاکٹر مجھے بتا رہا تھا کہ اس کا علاج ممکن ہی نہیں ہے۔ میں نے مترجم سے کہا: اس ڈاکٹر سے پوچھو کہ اسے روزانہ کتنی رقم درکار ہوگی؟ اُس نے جو رقم بتائی، وہ کوئی بہت زیادہ نہیں، بلکہ معمولی رقم تھی۔ اتنی، جتنی ہم اپنے ملک میں ایک دفعہ سافٹ ڈرنک پی کر خرچ کر دیتے ہیں! میں نے کہا: کوئی مسئلہ نہیں، میں اپنی جیب سے یہ رقم دے دوں گا، وہ عورت مطمئن ہوگئی اور (خوشی سے) میرا ہاتھ چومنے لگی، مگر میں نے منع کر دیا اور اس سے کہا کہ اپنے بیٹے کے لیے یہ نقدی پورا سال لیتی رہنا اور اگر پیسوں کی کمی ہو تو (اپنے ایک مقامی ورکر کی طرف اشارہ کیا) یہ تمہیں دے دے گا، جو تمہیں چاہیے ہو اور اُسے چیک سائن کر کے دے دیا تاکہ طے شدہ رقم لے سکے۔ (جاری ہے)