کیا پبلک پارکس میں ٹِک ٹاکرز کے داخلے پر پابندی سے ہراسگی کے واقعات میں کمی آئے گی؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کیا پبلک پارکس میں ٹِک ٹاکرز کے داخلے پر پابندی سے ہراسگی کے واقعات میں کمی آئے گی؟
کیا پبلک پارکس میں ٹِک ٹاکرز کے داخلے پر پابندی سے ہراسگی کے واقعات میں کمی آئے گی؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان پچھلے کچھ ہفتوں سے متنازعہ واقعات کی زد میں ہیں۔ ایک دن ایک خاتون کو سرعام عوامی سطح پر 400 مردوں کی جانب سے ہراسگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو اگلے ہی دن کچھ لوگوں نے کہنا شروع کردیا کہ یہ سب کچھ سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔

ناقدین ابھی تک اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ عائشہ اکرم واقعی ہراسگی کا شکار تھی یا پھر وہ موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتی تھی۔ اس ویڈیو کے اگلے ہی روز ایک اور ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں ایک خاتون کو بچے کے سامنے سڑک پر مرد کی جانب سے ہراساں کیا گیا مگر اس مرتبہ بھی کسی نے روکنے کی کوشش نہیں کی اور نہ اس شیطانی کھیل کے خلاف کسی نے آواز بلند کی۔

پاکستان میں خاص طور پر خواتین پہلی کے بعد دوسری ویڈیو کلپ کے وائرل ہونے کے خوف سے نہیں نکلی تھیں کہ ایک اور فیصلہ سامنے آگیا ہے۔ پنجاب حکومت نے حال ہی میں صوبے بھر کے پبلک پارکس میں ٹک ٹاکرز اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کے داخلے پر پابندی عائد کردی ہے۔ لیکن تشویش ناک بات یہ ہے کہ کیا ویڈیو بنانے والوں پر پابندی لگانے سے ہمارے ارد گرد ہراسگی کے واقعات میں کمی آجائے گی؟

لاہور میں ہراساں کرنے کے واقعات

14 اگست کے روز ٹک ٹاکر عائشہ اکرم پر مینار پاکستان کے قریب گریٹر اقبال پارک میں ایک ہجوم نے حملہ کیا، جبکہ ایک اور نوجوان خاتون لاہور میں اسی طرح کی آزمائش سے گزری ، جس کی ایک ویڈیو اب سوشل میڈیا پر سامنے آئی ہے۔

یہ واقعہ بظاہر یوم آزادی کے موقع پر پیش آیا تھا جب ٹک ٹاکر عائشہ اکرم پر 400 کے قریب لوگوں کے ہجوم نے حملہ کیا، جو قومی یادگار پر ملک کا یوم آزادی منانے کے لیے جمع ہوئے تھے۔

عوامی مقامات پر ٹک ٹاکرز اور یو ٹیوبرز پر پابندی

حال ہی میں ، لاہور میں ہراسگی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ سے ایک بار پھر ٹک ٹاکرز پر پنجاب حکومت نے تمام بڑے پارکس میں خاندان کے بغیر داخلے پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔

پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی (پی ایچ اے) نے ٹک ٹاک ویڈیوز اور سوشل میڈیا چینلز پر کام کرنے والوں پر پابندی عائد کردی ہے۔ ان متاثرین کو پارکس میں ویڈیو بنانے کی اجازت نہیں ہوگی۔

ٹک ٹاک پر پابندی

پی ٹی اے غیر اخلاقی مواد سے متعلق شکایات کے بعد ایک بار پھر ٹک ٹاک پر پابندی لگانے پر غور کر رہا ہے۔ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ چینی ایپ پر پاکستان میں پابندی عائد کی جائے گی کیونکہ اس پر پہلی بار اکتوبر 2020 میں پابندی عائد کی گئی تھی۔

پی ٹی اے کے مطابق یہ فیصلہ غیر اخلاقی مواد سے متعلق شکایات پر لیا جارہا ہے، تاہم 10 دن کے بعد پابندی کا فیصلہ واپس لے لیا گیا تھا۔ تب سے یہ ٹک ٹاک ایپ ادھر سے اُدھر ہچکولے کھا رہی ہے۔

ٹک ٹاک ویڈیوز کو ضائع کرنے کا عمل

اس سال پاکستان میں ٹک ٹاک سے چھ ملین سے زائد ویڈیوز ہٹائی گئیں۔ تقریبا 15 فیصد ویڈیوز ایسی تھیں جو عریانیت کا عنصر بہت زیادہ واضح تھا۔ آزادی اظہار کے حامیوں نے حکومت کی سنسرشپ پالیسی پر بہت زیادہ تنقید کی تھی۔

کیا پابندی صرف واحد حل ہے؟

“جیسے عوام ویسے حکمران” والی کہاوت پاکستانیوں پر بالکل فٹ بیٹھتی ہے، مگر اب یہ کہاوت ٹک ٹاکرز پر بالکل ٹھیک بیٹھتی دکھائی دے رہی ہے۔ چینی ایپ پر متعدد ویڈیوز موجود ہیں ، تاہم لوگ ان ویڈیوز کو دیکھنے کا انتخاب کرتے ہیں جنہیں وہ دیکھنا چاہتے ہیں۔

مجوزہ پابندی نے سوشل میڈیا پر ایک بحث کو جنم دے دیا ہے اور بہت سے لوگوں نے اس پابندی کو سراہا ہے ان کے خیال میں اس پر پابندی سے مینار پاکستان جیسے واقعات میں کمی آئے گی۔ انہوں نے کہا ہے پابندی سے غیراخلاقی مواد کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد ملے گی۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چنگچی رکشا میں ہراساں ہونے والی خاتون ٹک ٹاکر نہیں تھی ، وہ ایک چھوٹے بچے کے ساتھ تھی ، اس نے جسم ڈھانپا ہوا تھا ، اس نے مناسب کپڑے پہنے ہوئے تھے پھر بھی اسے ہراساں کیا گیا۔ اس کی ویڈیو بنائی گئی اور اسے سب کے سامنے رسوا کیا گیا۔

اگر حکمران اب بھی اصل مسئلے کو جڑ سے اکھاڑنے کے بجائے ایپس پر پابندی لگانے پر توجہ دیتے ہیں تو یہ ملک شمالی کوریا بن سکتا ہے جہاں کسی کو انٹرنیٹ کی ضرورت نہیں ہے۔

Related Posts