کیا ہونے جا رہا ہے ؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پچھلے ایک ہفتے کے دوران پی ڈی ایم کے پرجوش جذبوں اور گرم لہجوں والے کیمپ میں ایک تغیر رونما ہوا ہے۔ توپوں کا رخ اسٹیبلیشمنٹ سے مکمل طور پر ہٹ کر حکومت پر فوکس ہوگیا ہے۔ عوامی سرگرمیوں کی نسبت ڈرائنگ رومز کی سرگرمیاں زیادہ زور پکڑ گئی ہیں۔ پچھلے کالم میں عرض کیا جا چکا کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا فون بج چکا ہے۔ اور اس پر وہ کال موصول ہوچکی ہے جس کا انتظار ہورہا تھا۔ اس کے بعد کی سب سے اہم پیش رفت ڈی جی آئی ایس پی آر کی وہ اہم ترین پریس کانفرنس ہے جس میں سیاست سے لاتعلقی کا اعلان اس لطیف پیرائے میں کیا گیا کہ “پی ڈی ایم کے پنڈی آنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی مگر پھر بھی اگر وہ آتے ہیں تو چائے پانی پیش کریں گے” تلخ سیاسی ماحول میں یہ لطیف پیرایہ اظہار خود آنے والے ایام کی نوعیت کا پتہ دے رہا ہے۔ مگر اس جملے میں سب سے قابل غور بات “کوئی وجہ نظر نہیں آتی” ہے۔ پی ڈی ایم نے پنڈی جانے کی وجوہات بھی بیان کی تھیں۔ ایسے میں ان وجوہات کے نہ ہونے کا بیان بہت کچھ بتا گیا ہے۔ اور جو بتا گیا ہے اس پر اعتماد اس لئے بھی بنتا ہے کہ پی ڈی ایم نے جوابا یہ نہیں کہا کہ وجوہات بدستور موجود ہیں۔ وجوہات کا یہ خاتمہ ایک تعمیری پیش رفت ہے۔ اور یہی چیز پی ڈی ایم کے لہجوں میں رونما ہونے والی تبدیلی کا باعث ہوسکتی ہے۔

تناؤ کم کرکے تعمیری پیش رفت کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ کیونکہ ملک پر ایک ایسی حکومت ہے جسے کسی عدالتی فیصلے نے نہیں بلکہ اس کی کارکردگی نے تاریخ کی سب سے نااہل حکومت ثابت کردیا ہے۔ اس صورتحال کی المناکی صرف یہ نہیں کہ عام آدمی کے لئے وسائل رزق کا حصول ناممکنات کی حد تک جا پہنچا ہے۔ بلکہ یہ بھی ہے کہ ملکی دفاع داؤ پر لگ چکا ہے۔ اگر خدا نخواستہ دشمن جنگ مسلط کردیتا ہے تو ان حالات میں دفاع کے لئے درکار ہنگامی اخراجات کی سکت زبوں حال معیشت میں نہ ہوگی۔ یوں لازم ہے کہ ہر جانب سے معاملہ فہمی اختیار کرتے ہوئے درپیش سیاسی چیلنجز کا جلد سے جلد حل نکالا جائے۔ یہ بات بھی گزشتہ سے پیوستہ کالم میں عرض کی جا چکی کہ جمہوری نظام میں اسٹیبلیشمنٹ کا کردار ایک عالمی روایت ہے۔ دنیا کے سب سے طاقتور ممالک میں بھی یہ موجود ہے۔ لیکن یہ ہر جگہ سات پردوں کے پیچھے رہتی ہے۔ یہ اپنی تشہیر کے بجائے مقاصد پر مرکوز رہتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں حالیہ عرصے میں یہ غیر ضروری طور پر کچھ زیادہ ہی سامنے آگئی جس سے سنگین مسائل پیدا ہوئے۔ اس کے کردار کو نہ تو ختم کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی ختم کرنے کا سوچا جانا چاہئے۔ لیکن اس کا اپنی حدود تک رہنا ملک کی بقا کے لئے ناگیزیر ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس سے لگ رہا ہے کہ اس بات کا احساس کر لیا گیا ہے۔ اور اب معاملات اسی انداز سے آگے بڑھیں گے جس انداز سے انہیں بڑھنا چاہئے۔ سیاسی میدان سیاستدانوں کے لئے خالی رہنا چاہئے۔ اگر وہ نا اہل حکومت کو چلتا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو ان کی کامیابی، ناکام ہوتے ہیں تو ان کی ناکامی۔ اس میدان میں انہیں نہیں ہونا چاہئے جن کا یہ میدان نہیں۔

اسلام آباد کے سیاسی ماحول کا فہم رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ وہاں ایک سیاسی موسم ایسا آیا کرتا ہے جب ایک سناٹا سا چھا جاتا ہے۔ سر شام سجنے والی وہ محفلیں اجڑ جاتی ہیں جن میں سیاستدان، بیوروکریٹ اور صحافی خوش گپیاں کرتے نظر آیا کرتے ہیں۔ اچانک بیوروکریٹ سیاستدانوں اور سیاستدان صحافیوں سے کنی کترانا شروع کر دیتے ہیں۔ رات کی تاریکی میں دوڑتی کاروں کی رفتار عام معمول سے کچھ تیز ہوجاتی ہے، اور یہ کاریں مختلف کوٹھیوں پر آتی جاتی نظر آتی ہیں۔ کچھ کوٹھیوں میں صرف سیاستدانوں کی ملاقاتیں چلتی ہیں تو کچھ میں صرف بیوروکریٹس کی۔ ان دوڑتی کاروں کے تعاقب میں کچھ صحافی بھی ان کوٹھیوں تک پہنچتے ہیں مگر ان کے لئے دروازے نہیں کھلتے۔ اس ماحول میں کھچڑی کی دیگ صرف سیاستدانوں کے چولہے پر ہوتی ہے مگر وہ اس کے پکنے تک کامل راز داری برتتے ہیں۔ بیوروکریٹس ان پراسرار سیاسی ملاقاتوں کے نتیجے میں محتاط ہوجاتے ہیں اور یوں ان راتوں کے بعد آنے والے دن میں پاک سیکرٹیریٹ میں کام کی رفتار بہت تھم جاتی ہے۔ یہ آنے والے حالات کاپتہ اپنے گم سم وزیر سے لینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن پریشان وزیر تو خود صحافیوں سے پوچھ رہا ہوتا ہے “کیا ہونے جا رہا ہے ؟” اس پراسرار ماحول کی سب سے دلچسپ بات یہی ہوتی ہے کہ صحافیوں کو صرف بے خبر وزیر دستیاب ہوتے ہیں، اپوزیشن کے اہم لیڈر پکڑ میں نہیں آتے۔ جس کے نتیجے میں ان کے پاس “ذرائع” کے سر تھوپ کر بھی بتانے کو کچھ ٹھوس نہیں ہوتا۔ سو ان ایام میں بڑے بڑے تیس مار خان صحافی بھی چڑ چڑے سے ہوجاتے ہیں۔ وہ یہ تو جانتے ہیں کہ کچھ بڑا ہونے کو ہے۔ مگر اس کی تفصیل انہیں دستیاب نہیں ہوتی۔ بے یقینی کی اس فضاء میں حکومتی کیمپ میں ٹوٹ پھوٹ کی علامتیں ظاہر ہونا شروع جاتی ہیں۔ کچھ لوگ استعفے کا بطور لائف سیونگ جیکٹ استعمال کرتے ہوئے ڈوبتے حکومتی جہاز سے کود جاتے ہیں۔ پھر اچانک کسی سہہ پہر یہ پراسرار سیاسی سناٹا ایک بڑے ارتعاش کے ساتھ ٹوٹ جاتا ہے۔ اپوزیشن کی قیادت صحافیوں کے سامنے ہوتی ہے اور وزیر منہ چھپائے پھرتے ہیں۔ اب حقائق اور ذرائع دونوں بول رہے ہوتے ہیں۔ کہیں شام غم کا نزول تو کہیں لڈو بٹنے کی تیاری۔ پچیس برس میں پہلی بار اسلام آباد سے دور ہوں، سو دور سے ہی سنا ہے کہ وہاں یہ قدیمی پر اسرار سیاسی ماحول قدم جما چکا ہے۔ وزیر صحافیوں سے پوچھ رہے ہیں “کیا ہونے جا رہا ہے ؟”

Related Posts