امریکا چین کے مابین معاشی بقا کی جنگ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کہا جاتا ہے کہ جنگل کے جانوروں میں اپنی بقا اور سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے دوسرے کو مارنے کا اصول رائج ہے، یا پھر دوسرے لفظوں میں اپنے وجود کو دوسرے جانور سے لاحق خطرے کا سر کچلنے کا قانون لاگو ہے۔ اس اصول و قانون کے تحت جنگل کا ہر جانور ہمہ وقت ایک موہوم خطرے کو اپنے شعور میں پال رہا ہوتا ہے اور پھر اس شعوری خوف کی بنیاد پر ہمیشہ ہی اس کوشش میں رہتا ہے کہ کسی بھی طرح ایسا کوئی خطرہ اس کے وجود پر حاوی نہ ہوسکے، چنانچہ جانور عموماً انجانے خوف و خطر کے شکنجے میں ڈرے سہمے اور حساس نظر آتے ہیں۔

اس فطرت کے تحت وحشی جانور جن کا مسکن اصلی جنگل ہوتا ہے، عموماً انسانی آبادیوں سے دور اور فاصلے پر رہتے ہیں اور انسانوں کے ساتھ نامانوس ہوتے ہیں۔ ایسے جانوروں کو اپنے قریب کرنے کیلئے بڑی محنت کرنا پڑتی ہے اور بہت چاؤ اور طریقے سے ان کی وحشت اور اجنبیت دور کرنے کے جتن کیے جاتے ہیں۔

جانوروں میں خوف کے عناصر سے مرکب یہ اصول جہد للبقا کے فطری تقاضوں کا مظہر ہے، اسے survival of the fittest کا قانون کہا جاتا ہے۔ جانوروں کے متعلق یہ انکشاف ظاہر ہے کسی جانور نے کتاب لکھ کر، اپنے تجربات بیان کرکے یا کوئی علمی تحقیق پیش کرکے نہیں کیا ہے، بلکہ یہ ہم انسانوں کی ہی منکشف کردہ ایک ایسی حقیقت ہے، جس کی صحت پر ہم تمام انسانوں کا مکمل اعتماد اور اطمینان پایا جاتا ہے۔

یہ اصول انسانوں نے یقیناً جانوروں کی عادات و اطوار، رہن سہن اور چال چلن کی تحقیق و تفتیش کے نتیجے میں ہی مرتب کیا ہے اور جانوروں کا ہزار ہا سال سے جنگلوں اور پہاڑوں میں چلا آنے والا تعامل آج بھی اس کی تصدیق و تائید کرتا ہے۔

یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم سہی، مگر سوال یہ ہے کہ کیا سروائیول آف دی فٹسٹ صرف جنگل کے جانوروں اور وحشی درندوں کا ہی اصول ہے؟ شیخ سعدی نے اپنی کتاب بوستان میں شیطان کی زبانی اس کی شکایتیں اور حکایتیں بیان کی ہیں۔ جہاں ایک موقع پر وہ کہتا ہے “میں اتنا برا بھی نہیں ہوں، جتنا مجھے بتایا گیا ہے، مسئلہ در اصل یہ ہے کہ قلم میرے دشمن کے ہاتھ میں ہے۔” ہم انسانوں نے بڑی آسانی سے اپنی تحقیقی دماغ سوزی کا جوہر یہ کہہ کر کہ جنگل کے جانور اپنی بقا کیلئے دوسرے جانور یعنی اپنے ہم جنس کو مارنا ضروری سمجھتے ہیں، بے زبان جانوروں کو ہی “جانور” بنا کر پیش کرکے خود کو بری الذمہ کر دیا ہے۔ فرض کریں جانور ترقی کرکے اکتشاف و تحقیق میں انسانوں کے ہم پلہ بن جائیں اور پھر وہ قلم لیکر اپنی تحقیق رقم کریں تو کوئی انسان کا بچہ بتا سکتا ہے کہ ہماری تصویر بھی اس سے کچھ مختلف پینٹ ہوگی؟

یہ بات کہ اپنی بقا کیلئے دوسرے کو مارنا جانوروں کا اصول ہے، بلا شبہ ایک حقیقت ہے مگر یہ پوری سچائی نہیں ہے۔ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ یہ تحقیق سامنے لانے والا حضرت انسان بھی اس معاملے میں پورا جانور ہی ہے۔

تاریخ اور ماضی کے کھنڈرات کھود کھنگالنے کی ضرورت نہیں، دور جانے کا تکلف بھی مت کیجئے، یہ گزشتہ دنوں کی ہی بات ہے کہ امریکی صدر جوزف بائیڈن بھاگم بھاگ جاپان جا اترے، مسئلہ سروائیول آف دی فٹسٹ کا در پیش تھا، چنانچہ خطے میں امریکا کے ابھرتے ہوئے بڑے اتحادی بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی بھی جلالت پناہ بائیڈن کے چرن چھونے ٹوکیو جا پہنچے، یہاں امریکی صدر نے اپنے علاقائی اتحادیوں کو اکٹھا کیا اور بزبان حال یہ فرما کر کہ خطے میں چین کا بڑھتا ہوا اقتصادی اثر رسوخ ہماری بقا کیلئے کچھ اچھا شگون نہیں ہے، جھٹ پٹ علاقے میں نئے معاشی اتحاد آئی پی ای ایف (انڈو پیسفک اکنامک فریم ورک) قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔

آئی پی ای ایف در اصل انڈیا بحر الکاہل خطے میں چین کے معاشی ڈریگن کو آگے بڑھنے سے روکنے کا منصوبہ ہے۔ امریکا اگرچہ اس خطے کا جغرافیائی رکن نہیں ہے، مگر چونکہ وہ ایک سپر پاور ہے اس لیے دنیا کے ہر ملک اور خطے کا وہ پڑوسی اور شریک ہے۔ چین اس خطے کا حصہ ہے، مگر خطے کے چند ممالک کے ساتھ چین کی تاریخی اور تہذیبی رقابت ہے تو بہت سے ملکوں کو امریکا نے ورغلا اور پھسلا کر چین کا مخالف اور اپنا اتحادی بنا رکھا ہے۔

چین دنیا کی ابھرتی ہوئی طاقت ہے۔ اس نے اپنی معیشت اور سائنس و ٹیکنالوجی میں اپنی ترقی و استحکام کا لوہا دنیا سے منوا رکھا ہے، عالمی سیاست میں بھی اس کی بات وزن کے ساتھ سنی جاتی ہے، تاہم ابھی ایک سپر پاور پوزیشن کی بڑی عسکری قوت کے طور پر وہ قدرے پیچھے ہے۔ چین کی پیشرفت کی رفتار دھیمی اور اس کی سوچ ٹھنڈی اور غیر جارحانہ ہے۔ چین اپنا اثر رسوخ معاشی ترقی کے تصور اور تعمیر و ترقی کے عملی منصوبوں کے ذریعے بڑھا رہا ہے۔ اس کیلئے چین نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کا منصوبہ جاری کر رکھا ہے۔

بیلٹ اینڈ روڈ معاشی ترقی کا ایک ہمہ جہت شراکتی پیکیج ہے، یہ پیکیج صرف چین نہیں، بلکہ اس منصوبے میں شامل ہونے والے ملکوں کیلئے بھی معاشی ترقی کے وسیع امکانات رکھتا ہے۔ تاہم سات سمندر پار بیٹھا امریکا یعنی سب سے بڑا جانور سمجھتا ہے کہ چین کا یہ بڑھتا اثر رسوخ اور اس کے معاشی ترقی کے اہداف اور منصوبے یونہی آگے بڑھتے رہے تو کل کو میں پیچھے رہ جاؤں گا اور چین مجھ سے آگے بڑھ گیا تو وہی میری جگہ اَن داتا کی مسند سنبھال لے گا، چنانچہ امریکا نے سابق صدر ٹرمپ کے دور سے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کو لیکر چین کو اپنا معاشی دشمن اول ٹھہرا لیا ہے اور اس کو روکنے کیلئے ہر اس خطے میں جا پہنچتا ہے جہاں چین نےبی آر آئی کے تحت اپنا کوئی منصوبہ لانچ کر دیا ہو۔

انڈیا بحر الکاہل خطے میں امریکا کا نیا تجارتی اتحاد (آئی پی ای ایف) در اصل سروائیول آف دی فٹسٹ کے خوف کے اصول کے زیر اثر چین کے بی آر آئی کی راہ میں بند باندھنے کا ایک بندوبست ہے، دیکھتے جائیے بقا کی جدو جہد کی اس سیاسی لڑائی میں معاشی ترقی جیت جاتی ہے یا پھر امریکا کی استحصالی سیاست کی بازی گری کامیاب ٹھہرتی ہے۔

بہر کیف انسان ترقی کر گیا ہے، متمدن بھی ہوگیا ہے، مگر اس کی دوسروں کو مار پچھاڑ کر خود آگے بڑھنے اور اپنی بقا یقینی بنانے کی سوچ اور خو بو اب بھی نہیں بدلی!

Related Posts