ترکی کی جلد بازی کا خمیازہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے وقت شائد ترکی کو کوئی توقع نہیں تھی کہ طالبان کابل ایئرپورٹ کا کنٹرول سنبھالنے پر ترکی کو دوٹوک الفاظ میں یہ پیغام دینگے کہ کسی بھی بیرونی قوت کو افغانستان میں برداشت نہیں کیا جائیگا اور اب ایسا لگ رہا ہے کہ طالبان کی مرضی کے برعکس افغانستان میں قیام کے نتیجے میں ترک فورسز کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اوریہ بھی ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ جب امریکا اور نیٹو افواج ملکرطالبان کا مقابلہ نہیں کرسکیں تو ترکی کو یہ فیصلہ کرنے میں عجلت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔

ترکی کو شائد نیٹو کا واحد مسلمان رکن ہونے کی حیثیت سے یہ گمان ہوا ہو کہ ہم طالبان کے ساتھ معاملات کو بہتر انداز سے سنبھال سکتے ہیں ،اس پس منظر کے تحت ترکی نے امریکا سے کابل ایئرپورٹ کی حفاظت کی ذمہ داری لینے کا عندیہ دیا جس میں امریکا سازو سامان اور مالی طور پر ترکی مدد کرنے کا پابند ہوتا۔ترکی نے پاکستان کو بھی کابل ایئرپورٹ کی سیکورٹی سنبھالنے کی پیشکش کی لیکن پاکستان نے ظاہراً اس پر کوئی ردعمل نہیں دیااورطالبان کی طرف سے افغانستان سے انخلاء کے دوٹوک بیان کے بعد ترکی کو سفارتی سبکی ایک لازمی امر تھا ۔

ترکی نے کابل ایئرپورٹ کی سیکورٹی کے فیصلے سے قبل سفارتی آداب کو ملحوظ خاطر نہیں رکھاکیونکہ اس طرح کے اقدامات اور فیصلے پہلے پس پردہ طے کئے جاتے ہیں اور بعد میں ان کا اعلان کیا جاتا ہے تاہم ترکی نے طالبان کو اعتماد میں لئے بغیر اعلان کردیا اور طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ نیٹو کا رکن ہونے کی حیثیت سے ترکی افغانستان میںاپنے قدم جمانا چاہتا ہے اس لئے موجودہ صورتحال کے پیش نظر لگتا نہیں ہے کہ ترکی کو کابل ایئرپورٹ کی سیکورٹی سنبھالنے کی اجازت ملے گی۔

ترکی کونیٹوکا رکن ہونے کی وجہ سے ایک سبقت حاصل تھی کیونکہ امریکا نے ریاست افغانستان سے 2013ء میں ایک معاہدہ کیا تھا جس کی شقوں میں یہ بات واضح ہے کہ امریکی افواج کسی بھی وقت افغانستان آسکتی ہیں چاہے طالبان چاہیں یا نہ چاہیں یا کوئی اور قوت مخالف ہو لیکن یہ معاہدہ منسوخ ہونے تک کارآمد ہے اور اس معاہدے کی شق 26کے مطابق اس معاہدے کو منسوخ کرنے سے پہلے دونوں فریقین امریکااور افغانستان میں سے جو بھی اس کو منسوخ کرنے کا خواہشمند ہواس کو دو سال کا نوٹس دینا ضروری ہے۔

ترکی امریکا افغانستان معاہدے کے تحت افغانستان میں قیام کرسکتا تھا یانیٹو کا رکن یا امریکا کا اتحادی ہونے کا قانونی سہارا لے سکتا تھا جس کا کہ تذکرہ متذکرہ دفاعی معاہدے میں موجود ہے یاپھر کوئی نیا معاہدہ بھی کیا جاسکتا تھا لیکن طالبان کے بڑھتے رسوخ کی وجہ سے تاحال کسی نئے معاہدے کا امکان نہیں ہے جس کے تحت ترکی اپنی افواج افغانستان میں نیٹو کے پلیٹ فارم سے ہٹ کر تعینات کرسکے کیونکہ نیٹو افواج افغانستان میں ایک قرارداد کے ذریعے آئی تھیں اور انخلاء کے بعد یہ قرارداد غیر موثر ہوچکی ہے تاہم نیٹو چونکہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق قائم ہوئی اس لئے اسے ایک ریجنل آرگنائزیشن ہونے کی حیثیت سے نیٹو کے قواعد کے مطابق نیٹو ممالک میں کسی بھی حملے کی صورت میں مداخلت کا اختیارحاصل ہے تاہم امریکا افغان دفاعی معاہدے کے تحت بھی نیٹو فورسز کو تعینات کیاجاسکتا ہے۔

امریکا طالبان معاہدے کے بعد اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق تمام ممبران کی جانب سے افغان طالبان کو سیاسی تحریک تصور کرنا ایک قانونی ولازمی امرہے کیونکہ اس معاہدے کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت رجسٹر کرایا گیا ہے۔

امریکا اور طالبان کے درمیان گزشتہ سال فروری 2020ء میں امن معاہدے کے وقت دنیا کو طالبان کو ایک سیاسی قوت واسٹیک ہولڈر کی حیثیت سے تسلیم کرنے میں کوئی عذر ہوتا تو سامنے آجاتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔

طالبان نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ امریکا کیساتھ ہونیوالے امن معاہدے کے مطابق افغانستان کی سرزمین کسی دہشت گرد گروہ کے استعمال میں نہیں آئیگی اور ہم القاعدہ، داعش یا کالعدم تحریک طالبان کو کسی صورت افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دینگے۔

افغان طالبان اور کالعدم تحریک طالبان کو سنجیدہ حلقے ایک ہی سکے کے دو رخ قرار دیتے ہیں تاہم افغان طالبان اور کالعدم تحریک طالبان میں ایک عنصر کا فرق ہے کہ ٹی ٹی پی پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث رہی ہے اور اس میں بھارت کا نمایاں کردار رہا ہے جس نے ٹی ٹی پی کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کیا تاہم اس کے علاوہ افغان طالبان اور کالعدم تحریک طالبان کے بنیادی نظریات ایک ہی ہیں اور کبھی نہیں سننے میں آیا کہ افغان طالبان نے کالعدم تحریک طالبان کے کیمپوں کو اکھاڑ کر ان دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے کیا ہو؟۔

افغان طالبان کا بیان سیاسی تناظر میں تو درست ہے لیکن افغان طالبان ، امریکا اور اقوام عالم کو پاکستان سے کیا توقعات ہیں یہ تو وقت کے ساتھ ساتھ ہی معلوم ہوگا۔

امن معاہدے میں پاکستان کی کاوشوں کے بعد یہ ضرور ہے کہ افغان طالبان پاکستان کو قدر کی نگاہ سے ضرور دیکھتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ طالبان کسی کی ڈکٹیشن نہیں لیتے اور اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان دنیا بھر میں اپنے سفراء کے ذریعے یہ پیغام عام کرے کہ طالبان کسی صورت پاکستان کی ڈکٹیشن نہیں لیں گے۔

امریکا تو اشرف غنی حکومت کو مزید دو سال تک دیکھنے کا خواہاں ہے لیکن میری ذاتی رائے میں 6ماہ سے زیادہ اشرف غنی کی حکومت افغانستان میں دکھائی نہیں دیتی اور طالبان افغانستان کے 85فیصد کے قریب حصے پر اپنا تسلط قائم کرچکے ہیں اور ان علاقوں میں حکومتی اثر و رسوخ ختم ہوچکا ہے اس لئے اشرف غنی کی حکومت کا مستقبل مخدوش ہے یہی وجہ ہے کہ برطانیہ نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کو تسلیم کرنے کا برملا اظہار کردیا ہے اور دنیا کے مزید ممالک کو بھی افغانستان میں طالبان کے اقتدار پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

اقوام عالم کو طالبان حکومت کے قیام میں صرف بنیادی انسانی حقوق یا خواتین کے حوالے سے غیر انسانی رویہ سے پریشانی کا سامنا ہوسکتا ہے لیکن طالبان نے یہ بھی عندیہ دیدیا ہے کہ خواتین کی تعلیم یا بنیادی انسانی حقوق پر کوئی قدغن نہیں لگائی جائیگی۔

افغان طالبان اب 1990ء جیسے مائنڈسیٹ کے بجائے بہت میچور ہوچکے ہیں اور انہیں اپنی طاقت کا ادراک بھی ہوچکا ہے اگر طالبان اپنی طاقت کا درست استعمال کرتے ہیں تو دنیا انہیں صدق دل سے تسلیم کریگی جیسے برطانیہ نے اعلان کیا ہے۔

Related Posts