گستاخانہ خاکوں کی اشاعت، تحریکِ لبیک اور فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Protests of banned TLP end across country, sit-in continues in Lahore

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پر احتجاج کرتے ہوئے فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ کیا تھا جسے حکومت نے تسلیم کیا اور وقت مانگا جو 20 اپریل کو ختم ہوجائے گا۔

ٹی ایل پی کا یہ مطالبہ تاحال پورا نہیں ہوسکا جس پر تحریکِ لبیک کے نئے سربراہ حافظ سعد رضوی کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا ہے کہ اگر حکومت نے اپنا وعدہ پورا نہ کیا تو 20 اور 21 اپریل کی درمیانی شب سے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ شروع کیا جائے گا۔

آئیے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت اور ٹی ایل پی کے فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کے مطالبے سمیت دیگر حقائق کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے سے گستاخانہ خاکوں کا مسئلہ حل ہوجائے گا؟

 گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کا مسئلہ 

کسی بھی مسلمان کیلئے رحمت اللعالمین ﷺ کی ذات سے بڑھ کر دنیا کا کوئی بھی انسان واجب الاحترام نہیں ہےتاہم فرانس اور ڈنمارک سمیت بعض مغربی ممالک میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کو آزادئ اظہار سے جوڑنے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے۔

گزشتہ برس 2 ستمبر 2020ء میں دفترِ خارجہ نے فرانسیسی میگزین کی جانب سے گستاخانہ خاکوں کی دوبارہ اشاعت پر سخت مذمت کی اور کہا کہ اس عمل سے مسلمانوں کی دلآزاری ہوگی۔ فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو نے ایک بار پھر وہی گستاخانہ خاکے شائع کردئیے تھے جن کی وجہ سے 2015ء میں گستاخانہ میگزین کے دفتر پر حملہ ہوچکا تھا۔

قبل ازیں 7 جنوری 2015ء کو پیرس میں واقع گستاخانہ میگزین چارلی ہیبڈو کے دفتر پر حملہ ہوا اور خاکے شائع کرنے والے ایک شخص سمیت 11 افراد ہلاک ہو گئے۔ اگلے ہی روز پیرس میں ایک اور حملہ ہوا اور مزید 5 افراد ہلاک ہوئے۔ دنیا بھر میں احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے تاہم فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون نے گستاخانہ عمل کی کھل کر حمایت کی۔ 

پاکستان اور ترکی کا ردِ عمل 

وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ فرانسیسی صدر کے بیان سے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے۔ ایمانویل میکرون نے جان بوجھ کر اسلام پر حملہ کیا اور اسلامو فوبیا کو فروغ دیا۔ جہالت پر مبنی بیانات سے انتہا پسندی مزید فروغ پاتی ہے۔دفترِ خارجہ میں 26 اکتوبر 2020ء کو فرانسیسی سفیر کو طلب کیا گیا اور احتجاجی مراسلہ بھی تھمایا گیا۔ 

اکتوبر 2020ء میں کیے گئے خطاب کے دوران ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ اسلام دشمنی یورپ کو لے ڈوبے گی اور اسلامو فوبیا میں پڑ کر یورپ اپنے آپ کو ختم کر لے گا۔ اگر یورپ مسلم دشمنی کی بیماری سے باہر نہ آیا تو مسلم مخالف اتحاد یورپین ممالک کو ڈبو دے گا۔ فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون دماغی مریض ہے جسے علاج کی ضرورت ہے۔ 

احتجاج، مظاہرے اور دیگر ردِ عمل

دنیا بھر میں فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون کے خلاف مظاہرے ہوئے۔ لوگوں نے صدر ایمانویل میکرون کی تصاویر بھی نذرِ آتش کردیں۔ فلسطین اور لبنان کے مختلف شہروں میں مسلمانوں نے فرانسیسی پرچم بھی نذرِ آتش کردیا اور شام سمیت دیگر مسلم ممالک میں بھی مظاہرے ہوئے۔

پاکستان میں بھی واقعے پر شدید احتجاج کیا گیا۔ پنجاب اسمبلی میں فرانس سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کی قرارداد جمع کرائی گئی۔ قرارداد میں فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے اور فرانس کی مصنوعات پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ متعدد اسلامی ممالک نے فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کردیا۔ 

تحریکِ لبیک کا احتجاج اور مطالبات پر معاہدہ 

فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کے مطالبے کے ساتھ تحریکِ لبیک نے ستمبر سے ہی احتجاج کا آغاز کردیا تھا اور نومبر میں اسلام آباد میں ٹی ایل پی کارکنان دھرنا دے کر بیٹھ گئے جس کے بعد حکومت اور تحریکِ لبیک کے درمیان 17نومبر کو ایک معاہدہ طے پایا۔

حکومت اور ٹی ایل پی میں 4 نکاتی معاہدہ طے پایا تھا۔ حکومت نے کہا کہ ہم فرانسیسی سفیر کو 2 سے 3 ماہ میں ملک بدر کردیں گے۔ معاہدے پر حکومت اور ٹی ایل پی قائدین نے دستخط کردئیے۔ معاہدہ سادہ کاغذ پر ہاتھ سے تحریر کیا گیا تھا۔ معاہدے کے تحت فرانسیسی سفیر کو پارلیمان سے فیصلہ سازی کے بعد ملک بدر کیا جاسکے گا۔

معاہدے کے مطابق پاکستانی حکومت فرانس میں اپنا سفیر بھی تعینات نہیں کرے گی اور فرانس کی مصنوعات کا بائیکاٹ بھی کیا جائے گا۔ معاہدے کی چوتھی اور آخری شرط احتجاج کے دوران گرفتار ٹی ایل پی کارکنان کی رہائی تھی جو پوری کردی گئی۔

کیا فرانسیسی سفیر کی ملک بدری سے مسئلہ حل ہوگا؟

گستاخانہ خاکوں کی اشاعت صرف پاکستان کا نہیں، پوری امتِ مسلمہ کا مسئلہ ہے۔ بلاشبہ فرانسیسی سفیر کی ملک بدری سے گستانہ خاکوں کی اشاعت تو شاید نہ رکے لیکن اس سے عالمی سطح پر پاکستان کا احتجاج جو پہلے محض زبانی کلامی تھا، اب واضح اقدامات کے طور پر نظر آئے گا جس سے صورتحال میں کسی نہ کسی حد تک بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔

 

Related Posts