عدلیہ اور مقننہ کی جنگ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ریاست اپنی مختلف تعریفوں کی رُو سے ایک مرتکز سیاسی نظام کا نام ہے جو کسی بھی ملک یا خطے کے عوام پر قواعد و ضوابط اور قوانین کا اطلاق کرتی نظر آتی ہے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ ریاست مختلف عناصر پر مشتمل ہے جنہیں اس کے ستون قرار دیا جاتا ہے جن میں عدلیہ، مقننہ اور عسکری قیادت اہم سمجھے جاتے ہیں جبکہ موجودہ دور میں میڈیا کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کی بنیاد پر صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون سمجھا جانے لگا ہے۔

گزشتہ روز سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پراسیجر ایکٹ کے متعلق کیس کی سماعت سپریم کورٹ آف پاکستان میں 8 رکنی ججز بینچ نے کی جس کی سربراہی چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کی۔ چیف جسٹس نے ریارکس دئیے حکومت خود چیزیں درست کرلے یا پھر حکومت بناتی رہے، ہم مقدمات سنتے رہتے ہیں، دیکھتے ہیں تیز کون ہے۔

دلچسپ طور پر مقننہ یعنی پارلیمنٹ نے جو قانون بنایا ہے اسے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پراسیجر ایکٹ کہا جاتا ہے اور مبینہ طور پرا اس ایکٹ کا مقصد چیف جسٹس کے دائرۂ اختیار کو محدود کرنا ہے۔ حکومت پہلے ہی یہ بیان جاری کرچکی کہ چیف جسٹس کو یہ مقدمہ نہیں سننا چاہئے۔

جب کسی ریاست میں مقننہ اور سیاستدان کسی ایسے تنازعے میں الجھ جاتے ہیں جس کا دور دور تک کوئی حل نظر نہ آتا ہو تو ریاست میں سیاسی رسہ کشی اور اقتدار و اختیارات کی جنگ الگ حیثیت اختیار کر جاتی ہے۔ کچھ یہی حال پاکستان کا ہوا ہے۔

ایک جانب تو حکومت نے سپریم کورٹ قواعد وضوابط کی موجودگی میں ایک نیا قانون بنا ڈالا جس کی بظاہر کوئی ضرورت نہیں تھی اور دوسری جانب سپریم کورٹ بھی اس قانون کو من و عن قبول کرنے کی بجائے اس پر درخواستوں کی سماعت فرما رہی ہے۔

ایک جانب عمران خان ہیں جو قبل از وقت الیکشن سے کم کسی بات پر راضی نہیں تھے اور دوسری جانب حکومت ہے جس نے پی ٹی آئی کے خلاف ملک گیر کریک ڈاؤن کیا، کارکنان کو گرفتار کر لیا اور ان پر دہشت گردی کے الزامات عائد کرتے ہوئے ہزاروں افراد کو جیل بھیج دیا۔

بقول عمران خان اس وقت پی ٹی آئی کے کم و بیش 10 ہزار کارکنان جیل میں اور باقی انڈر گراؤنڈ ہیں۔ اس کے باوجود پی ڈی ایم کو ڈر ہے کہ اگر الیکشن ہوئے تو وہ جیت نہیں سکیں گے کیونکہ پی ٹی آئی ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن چکی ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ اپوزیشن کے طور پر پی ٹی آئی، حکومت کے طور پر وزیر اعظم شہباز شریف اور عدلیہ کے طور پر چیف جسٹس آف پاکستان وقت کی نزاکت کو سمجھیں اور ملک کی بگڑتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کیلئے افہام و تفہیم کا راستہ اپنایا جائے۔ اگر سیاسی رسہ کشی اور اقتدار کی یہ جنگ ختم نہ ہوئی تو ملک میں معاشی بحران بھی طویل عرصے تک جاری رہنے کا خدشہ ہے جس کا پاکستان متحمل نہیں ہوسکتا۔ 

 

 

Related Posts