سینیٹ انتخابات اور پی ڈی ایم کا مستقبل

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سینیٹ کی نشستوں کے لئے ہونے والے انتخابات، جو ممبران 6سال کی مدت کے بعد ریٹائر ہوتے ہیں ان کی خالی ہونے والی نشستوں پر ہوئے، ان میں سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے عہدوں کا تاریخی انتخاب ہوا، یہ واقعتا تاریخی موقع تھا، یہ انتخابات حکمران جماعت تحریک انصاف اور ان کے حلیفوں مشترکہ اپوزیشن دونوں کے لئے اہم پیغام چھوڑ گئے۔

در حقیقت، یہ ایک ایسا ڈرامہ تھا جو حالیہ تاریخ میں اپنی نوعیت کا بالکل نیا واقعہ ہے، جہاں حکمران جماعت اور مشترکہ اپوزیشن 11 پارٹیوں کا اتحاد، جسے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (PDM) کہا جاتا ہے۔ یہ ایک تلخ اور شدید کشمکش کی صورتحال سے دوچار تھی، دونوں ہی برتری کے خواہشمند تھے اور اگر اس مقابلے کو بھوکے شیروں کے مابین لڑائی کہا جائے تو یہ غلط نہیں ہوگا۔

پی ٹی آئی اور حلیف جماعتوں کو اسلام آباد کی نشست کے مقابلے میں ایک حیرت انگیز شکست کا سامنا کرنا پڑا، جہاں پی ڈی ایم کے یوسف رضا گیلانی نے عمران خان اور ان کے اتحادیوں کے نامزد امیدوار، وزیر خزانہ حفیظ شیخ کو شکست سے دوچار کیا،مگر آخر میں سینیٹ کی نشست پر گیلانی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، جس کے باعث پی ڈی ایم جیتی ہوئی جنگ ہار گئی اور اشتعال کی صورتحال پیدا ہوگئی۔

اس صورتحال کے بعد پی ٹی آئی کی حریف جماعتوں میں لفظی جنگ شروع ہوگئی، یعنی پی پی پی، نون لیگ اور مولانا فضل الرحمن کے مابین ایک نیا محاذ کھل گیا، لفظوں کی جنگ کا آغاز ہوگیا، جنہوں نے طویل عرصے سے حکومت مخالف مہم کی قیادت کی اب ایوان بالا میں گیلانی اور عبد الغفور حیدری کی شکست پر مشتعل دکھائی دے رہے ہیں۔

اسلام ہمیں عاجزی کا درس دیتا ہے اور جیتنے پر اللہ کے حضور اس کا شکر ادا کرنا چاہئے، اگرچہ عمران خان نے زبردست پختگی کا مظاہرہ کیا،اپنے آپ کو صرف فاتحین کو مبارکباد دینے تک ہی محدود رکھا، لیکن ان کے وزراء اور مشیران نے اس کے بالکل برعکس سلوک کیا۔ خوشی فطری ہے، لیکن سادگی کے ساتھ اور تکبر کی علامت کے بغیر ہونی چاہئے۔

اسلام آباد کی نشست پر گیلانی کی فتح پر خوشی کے باوجود، چیئرمین کی نشست کھو جانا افسوس کا سبب بن گیا،گیلانی کے 8 ووٹوں کو مسترد ہونے کے فیصلے پر سخت ناراضگی دیکھنے میں آئی اور پارلیمنٹ کو حکمران اتحاد کے حق میں متعصبانہ ہونے کا الزام لگایا گیا۔ مظفر شاہ، جو سابق وزیر اعلیٰ سندھ، اور سندھ اسمبلی کے اسپیکر بھی رہ چکے ہیں، اور فاروق ایچ نائک کو اس بات پر قائل کرنے میں ناکام رہے کہ ان کا فیصلہ قواعد کے مطابق ہے۔

یہاں سوال یہ ہے کہ اپوزیشن نے ایوان بالا کے خصوصی اجلاس کی صدارت کرنے پر ان پر اعتراض کیوں نہیں اُٹھایا؟ کوئی تحفظات نہیں دکھائے گئے، جس کا مطلب ہے کہ ہر ایک نے انہیں اصولوں اور طریقہ کار کے مطابق قبول کیا تھا۔

اگرچہ بلاول بھٹو نے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کو سپریم کورٹ اور دیگر تمام انصاف کے اداروں میں چیلنج کرنے کی قسم کھائیہے، مولانا فضل الرحمن نے پی ڈی ایم کا اجلاس منگل، 16 مارچ کو اسلام آباد میں طلب کیا ہے۔ ظاہر ہے، وہ اپنے نامزد امیدوار کی شکست پر اپنے آپ کو رسوا محسوس کر رہے ہیں، اور انہوں نے اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے کے اپنے اصل مطالبے کو واپس لیا اور اب لانگ مارچ کو بھی ملتوی کرنے کا سوچ رہے ہیں۔

تاہم، مریم نواز لاہور ہائیکورٹ کی ضمانت کی منسوخی کا سامنا کررہی ہیں، مریم نواز 6نومبر 2019سے ضمانت کے باعث آزادانہ زندگی گزاررہی ہیں، نیب کا عدالت میں کہنا ہے کہ مریم کو ایک محدود مدت کے لئے ضمانت دی گئی تھی مگر وہ اپنی سہولت کا غلط استعمال کررہی ہیں، وہ اداروں پر الزامات لگا رہی ہیں، یعنی فوج کے اوپر بھی بیان بازی سے بھی گریز نہیں کررہی ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے اسے یکسر غلط رنگ دیتے ہوئے کہا کہ نیب مریم نواز کو اظہار رائے کی آزادی کے حق سے روکنا چاہتی ہے جس کی آئین پاکستان کے شہریوں کو ضمانت دیتا ہے۔

آئندہ دنوں، ہفتوں کے لئے، بیشتر قانونی ماہرین نے یہ واضح کیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 60 اور 69 کے تحت کسی بھی عدالت یا دیگر حلقوں میں اسمبلی کی کارروائی غیر آئینی ہے۔ایسے میں کیا ہوگا، لوگوں کو صبر سے انتظار کرنا ہوگا، اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے سے گریز کرنا ہوگا۔

Related Posts