ڈیفالٹ کے خدشات

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کے حالیہ بیانات کے مطابق پاکستان کے پاس اربوں کے نہیں بلکہ ہزاروں ارب ڈالرز کے اثاثہ جات موجود ہیں اور پاکستان کسی صورت ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔

اپنی پوسٹ بجٹ تقریر کے دوران جس یقین اور اعتماد کے ساتھ وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے ملک کے ڈیفالٹ کے خدشات کو ہمارے ذہنوں سے جس تندہی کے ساتھ کھرچ کر مٹا دیا، راقم الحروف کو تو یہ خدشہ تھا کہ اب یہ خدشات دوبارہ ہمارے ذہنوں پر دستک دے ہی نہیں سکیں گے۔

برا ہو امریکی جریدے بلوم برگ کا کہ جس نے تصویر کا دوسرا رخ دکھاتے ہوئے یہ فرمایا کہ پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ اپنے 6.7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پروگرام کو دوبارہ شروع کرنے یعنی اگلی قسط حاصل کرنے میں ناکامی کے خطرے میں ہے۔

بلوم برگ کا پاکستانی میڈیا میں گزشتہ روز سامنے آنے والی رپورٹ میں کہنا تھا کہ پاکستان ڈیفالٹ کے قریب پہنچ گیا ہے اور اس بات کے خطرات بڑھ رہے ہیں کہ پاکستان جون کے آخر میں ختم ہونے والے آئی ایم ایف پروگرام کی تکمیل میں ناکام ہوسکتا ہے۔

امریکی جریدے بلوم برگ کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کے بغیر پاکستان کے ذخائر کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ کہنا بالکل درست ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ کرسکتا ہے۔

یہی نہیں، بلکہ جریدے نے تو یہ بھی کہا کہ پاکستان اپنے آئی ایم ایف پروگرام کو بحال کرنے کی آخری کوشش میں ہے۔ 2 ارب ڈالر کے فنانسنگ گیپ اور ایکسچینج ریٹ پالیسی ڈیفالٹ سے بچنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹوں میں شامل ہیں۔

جب یہ رپورٹ سامنے آئی تو ہمیں یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ حکومت کا تو کام ہی سب اچھا ہے کہہ کر اپنی مدت پورا کرنا ہوتا ہے۔ بعد ازاں کوئی وزیرِ خزانہ یہ تسلیم بھی کررہے کہ حکومت کی معاشی پالیسیاں درست نہیں تو اس کا عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

مثال کے طور پر سابق وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کے بیانات سے واضح ہے کہ وہ اسحاق ڈار کی معاشی پالیسیوں کو درست نہیں سمجھتے۔ ہوسکتا ہے کہ درست نہیں سمجھتے، اسی وجہ سے ان کو عہدے سے ہٹایا گیا ہو، تاہم یہ وجہ ان کی موجودہ رائے کو غلط سمجھنے کیلئے کافی نہیں ہے۔

بجٹ کی صورت میں وفاقی حکومت نے عوام کو بڑھتی ہوئی تنخواہوں اور پنشن مراعات سمیت دیگر جتنے بھی سبز باغ دکھائے ہیں، گزشتہ روز جب آئی ایم ایف کی جانب سے اعتراضات کا اعتراف خود حکومت کی جانب سے سامنے آیا تو وہ سب کے سب باغ خزاں کی لپیٹ میں آچکے ہیں۔

ضروری ہے کہ حکومت عوام کو بجٹ کے اعدادوشمار میں الجھانے کی بجائے درست حقائق سے آگاہ کرے اور اپنی معاشی ٹیم کی ناکامیوں کو چھپانے کی بجائے ان پر قابو پانے کی کوشش کرے۔ صرف اسی صورت میں ہی پاکستان معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔ 

Related Posts