مذاکرات اور عملی اقدامات کی ضرورت

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ملک کی سب سے بڑی عدالت یعنی سپریم کورٹ آف پاکستان اور موجودہ پی ڈی ایم حکومت کے مابین اختیارات کا اہم تنازعہ سامنے آیا ہے جو دونوں فریقین کیلئے لمحۂ فکریہ بن گیا۔

گزشتہ روز سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس کمیشن کیس کی سماعت کی۔ اس دوران چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے کے دوران ریمارکس دئیے کہ مفروضے پر بات بھی کیسے کی جاسکتی ہے کہ کیس میں چیف جسٹس سمیت 3 ججز کا مفاد ہے؟

ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ ایگزیکٹو کو سپریم کورٹ کے اختیارات میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔ انکوائری کمیشن بنانے سے قبل ہم سے سوال تک نہ کیا گیا۔ صرف الزامات کی بنیاد پر ججز پر اعتراض عائد نہیں کیاجاسکتا۔

قبل ازیں وفاقی حکومت نے چیف جسٹس سے مشاورت کے بغیر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور اسلام آباد و بلوچستان ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز کی سربراہی میں آڈیو لیکس کمیشن بنادیا۔ دوسری جانب سپریم کورٹ نے بھی آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف کیس کی سماعت شروع کردی۔

حکومت کی جانب سے کمیشن کی تشکیل پر مبنی اقدامات سے عدلیہ اور حکومت کے مابین تصادم کا ماحول جنم لے چکا ہے۔ عدلیہ سے مناسب مشاورت یا ہم آہنگی کے بغیر کمیشن کے قیام کا حکومتی فیصلہ اختیارات اور تعاون کی ضرورت کو نظر انداز کرنے کی نشاندہی کرتا ہے۔

ضروری ہے کہ حکومت اور عدلیہ کے مابین آڈیو لیکس کمیشن کی تحقیقات اور آڈیو لیکس کیس کی سماعت سمیت تمام باہمی مسائل کا حل نکالا جائے تاکہ وفاقی حکومت اپنا قیمتی وقت ملک کو معاشی مسائل سے نکالنے پر صرف کرے۔

تاحال پاکستان پر ڈیفالٹ کے خدشات منڈلا رہے ہیں۔ حال ہی میں وزیر اعظم شہباز شریف نے امکان ظاہر کیا تھا کہ آئی ایم ایف رواں ماہ پاکستان کو قرض کی قسط دے دے گا۔

آئی ایم ایف سے ریلیف ملنے کی صورت میں پاکستان پر منڈلاتا ہوا ڈیفالٹ کا خدشہ ٹلنے کے بہت امکانات ہیں، تاہم تاحال آئی ایم ایف  کے محاذ پر عوام کو حکومت کے  امیدوں، وعدوں اور بیانات کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوسکا۔

حکومت نے بجٹ کے متعلق تفصیلات بھی آئی ایم ایف کے ساتھ شیئر کردی ہیں، تاہم معاشی صورتحال میں بہتری کے آثار تاحال نظروں سے اوجھل ہیں۔ ایسے میں وزیرِ خزانہ کا یہ بیان کہ ڈیفالٹ کی باتیں کرنے والوں کو شرم آنی چاہئے، بذاتِ خود تشویشناک ہے۔

جب معاشی محاذ پر کامیابی مل رہی ہوتی ہے تو تلخ باتوں کا جواب بھی خوشی سے دیا جاتا ہے جبکہ اگر کامیابی کی جگہ ناکامی مقدر ہوتی دکھائی دینے لگے تو بیانات اور تقاریر سے بھی غم و غصہ جھلکنے لگتا ہے۔

تجزیہ کاروں کو پاکستان کے ڈیفالٹ کا خدشہ ہو تو کیا وہ اسے بیان بھی نہ کریں؟ ضروری ہے کہ موجودہ حکومت ڈیفالٹ کے خدشات کو دور کرنے کیلئے بیانات کی بجائے عملی اقدامات کا سہارا لے۔ صرف اسی صورت میں ہی میڈیا نمائندگان، کالم نگاروں اور صحافیوں کی تنقید سے بچا جاسکتا ہے۔

 

Related Posts