مسلمانوں کا زوال

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 صدیوں پہلے جب ہلاکوخان نے بغدادپرحملہ کیاوہ بستیوں کو تاراج کرتا ہزاروں انسانوں کو تہہ تیغ کرتا مسلمانوں کے عظیم مذہبی،ثقافتی اور علمی و ادبی مرکزمیں پہنچا یہاں بھی اس نے ظلم وبربریت کی نئی مثالیں قائم کرڈالیں انسانی کھوپڑیوں کے میناربناکرفتح کا جشن منانا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔

تاریخ بتاتی ہے جب ہلاکو خان نے بغداد کی لائبریروں کی کتابوں کو دریا میں پھینکوایا تو اتنا عظیم الشان ذخیرہ تھا کہ پانی کئی گھنٹے رک گیا اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس وقت کا بغداد کیسا شہرِ حکمت ودانش ہوگا؟ بہرحال سقوط ِ بغدادکے بعد جب وزیروں، مشیروں، معززین اورعلماء کرام کو اس کے سامنے پیش کیا گیا تو چہار اطراف تباہی و بربادی تھی ۔

 قرآن کہتاہے اللہ نے نافرمان قوموں پر طرح طرح کے عذاب نازل کئے کسی کی شکل تبدیل ہوگئی کوئی پانی میں غرقاب ہوگیا،کسی قوم پر چوہوں کا عذاب آیااوروہ طاعون کے مرض میں مبتلاہوکر مرتے چلے گئے،کہیں مینڈکوں کی افراط ہوگئی لوگ عاجز آگئے اور کہیں نافرمانوں کیلئے پانی خون میں بدل جاتا وہ پیاسے مرجاتے ۔

مسلمانوں پر ایسا کوئی عذاب نہیں آنے والا اس کی وجہ فقط یہ ٹھہری کہ ہم اللہ کے آخری اور اس کے پیارے نبی ٔ اکرم ﷺ کے امتی ہیں ورنہ اعمال تو ہمارے شاید نافرمان قوموں جیسے ہی ہیں ہمارے شکلیں صورتیں تو نہیں بدلیں لیکن ہم جیسے نافرمانوں کیلئے اللہ کے عذاب کی شکل بدل گئی، اربوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود مسلمان پوری دنیا میں ذلیل و رسوا ہورہے ہیں بیشتر اسلامی ممالک عدم تحفظ کا شکار ہیں درجنوں مسلمان ملک اپنے داخلی ،خارجی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں ۔

شام،فلسطین، افغانستان،عراق، ایران، سعودی عرب، شام،یمن ، لبنان میں سے اکثر مسلمان ہی مسلمانوں کے خلاف نبرد آزما ہیں، وادی کشمیر میں ایک سال سے کرفیو نافذ ہے، ایک عرصہ سے کشمیری جدوجہد آزادی کا مطالبہ کررہے ہیں، برمامیں مسلمانوں کا جینا عذاب بن چکاہے ان کی نسل کشی ہورہی ہے دکھ کی بات یہ ہے کہ ان کے حق میں کوئی آواز نہیں اٹھاتا حتیٰ کہ بیشتر مسلم حکمرانوں نے بھی چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے ۔

خلیجی ممالک میں سب سے زیادہ بزنس مین اور ملازمین کی اکثریت ہندوؤں کی ہے، اقلیت کی اکثریت پر حکومت بھی تو اللہ کا عذاب ہی ہے ، اسلامی ممالک میں زیادوہ تر بادشاہت ہے لیکن جو ملک جمہوری کہلاتے ہیں، یہاں بھی غالب آبادی کو انسانی حقوق میسرنہیں، مراعات ،ریاستی وسائل اور ہرقسم کی آسائشیں صرف اشرافیہ کے تصرف میں ہیں، عوام کو تو زندگی کی بنیادی سہولیات سے آشنائی ہی نہیں ۔

ہم مسلمانوں نے تو زمانہ بیتا غوروفکر کرنا ہی چھوڑ ڈالا ہر کسی کو بس اپنا وقتی فائدہ ہی اچھا لگتا ہے اور اس کے لئے وہ کسی بھی حد تک جانے سے گریز بلکہ دریغ نہیں کرتا پھر ہمارے ساتھ جو کچھ ہورہاہے اس کا گلہ کیسا ؟شکوہ کیونکر؟کوئی مانے یا نہ مانے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ ایسے حکمران بھی اللہ کا عذاب ہیں جو غریبوں کے حصے کا زرق چھین کر اپنی دولت میں اضافہ کرتے چلے جائیں۔

مہنگائی، بیروزگاری، دہشت گردی،ملاوٹ،ڈاکٹر قصائی بن گئے ہیں ، تھانوں اور عدالتوں میں انصاف نہیں، نہ جانے ہم ظلم کا تختہ مشق کیوں بن گئے ہیں کسے علم کہ کتنے مسائل عوام کو اندر ہی اندرسے کھائے چلے جارہے ہیں ۔

یقین جانئے جنوبی ایشیا میں برصغیر کے بیشترممالک کے عوام تو عذاب درعذاب کا شکار ہیں ہر محکمہ،ہر ادارہ، ہر بااثرشخص عوام کا استحصال کررہا ہے، کوئی سچ کہنا،سننا اور برداشت کرنے کو تیار نہیں یہ بھی عذاب کی اقسام ہیں، آپ ایک لمحے کے لئے ہی سہی ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں پھر جواب دیں اور عذاب کیسا ہوتاہے ؟ سمجھ اس لئے نہیں لگ رہی کہ شاید ہمارے دل و دماغ پر مہریں لگادی گئی ہیں ۔

Related Posts