افغان طالبان اور خطے کا مستقبل

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 افغانستان موجودہ علاقائی اور بین الاقوامی تناظر میں ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے جس کے سبب دنیا کے کئی ممالک خاص طور پر امریکا افواج کے انخلاء کے باوجود اپنی دلچسپی برقرار رکھے ہوئے ہے۔

افغانستان کے بدلتے منظر نامے میں طالبان بتدریج اپنی قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تقریباً 85 فیصد علاقے پر قابض ہوچکے ہیں اور طالبان کو بہت کم مزاحمت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

جو برتری افغان حکومت کو ہے وہ صرف فضائی برتری ہے جس کو ختم کرنے کیلئے طالبان نے پائلٹس کی ٹارگٹ کلنگ کرنا شروع کردی ہے۔ وہ افغان پائلٹ جن کو امریکا نے تربیت دی تھی اور جو اس وقت بمباریالڑاکا طیاروں کے ذریعے طالبان کے زیر اثر علاقوں میں بمباری کررہے ہیں ، ان کو قتل کیا جارہا ہے۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ افغان حکومت کے پاس لڑاکا طیارے تو ہونگے لیکن ان کو اڑانے کیلئے پائلٹس نہیں ہونگے اور جو پائلٹس طالبان کے حملوں میں زندہ بچ بھی جائینگے وہ بھی جہاز اڑانا نہیں چاہیں گے ان کی کوشش یہی ہوگی کہ اپنی زندگی بچا کر ملک چھوڑ کر چلے جائیں۔اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ افغان طالبان جس طرح اپنی عسکری سبقت بڑھاتے جارہے ہیں تو مہینوں میں نہیں بلکہ چند ہفتوں میں ہی مکمل طور پر افغانستان پر قابض ہوجائینگے۔

افغان طالبان گزشتہ 20 سالوں میں بدلتے ہوئے حالات کو دیکھ کر دنیا کے ان قوانین کو بھی ذہن میں رکھے ہوئے ہیں جس پر دنیا ناصرف نظر رکھتی ہے بلکہ اگر کوئی ملک انسانی حقوق، خواتین کے حقوق، بچوں کے حقوق، خواتین کی تعلیم اور اس طرح کے دیگر عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو ان پراقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق سزاؤں کا اطلاق کرتے ہیں اور چیپٹر 4 و 6 کے مطابق عسکری کارروائیوں پر سخت اقدام بھی اٹھائے جاسکتے ہیں۔

اس لحاظ سے طالبان کو یقیناً اس بات کا ادراک ہوگا کیونکہ طالبان آنیوالے دنوں میں دنیا سے روابط بھی قائم کرنا چاہتے ہیں اور مالی امداد بھی نہیں چھوڑنا چاہتے اور امریکی صدر جوبائیڈن بھی واضح کرچکے ہیں کہ افغانستان میں نئی حکومت کا فیصلہ افغان عوام نے کرنا ہے اور اگر طالبان کی حکومت بھی قائم ہوتی ہے تو امریکا سمیت کئی ممالک اس کو تسلیم کرلینگے۔

خطے کی دیگر علاقائی قوتوں کا جائزہ لیا جائے تو ایران نے گزشتہ دنوں افغان طالبان سے مذاکرات کئے جبکہ روس نے بھی افغان طالبان سے بات چیت کی اور افغان طالبان کی طرف سے یہی عندیہ ہے کہ امریکا کے ساتھ معاہدے کی پاسداری کو مقدم رکھیں گے اور اس معاہدے کی پاسداری ہونی بھی چاہیے۔

طالبان یہ الزامات لگاتے رہے ہیں کہ افغان حکومت ان کے قیدیوں کو آزاد نہیں کررہی۔ فروری 2020 کے امن معاہدے میں شامل ہے اور معاہدے کی دیگر چند شقوں پر بھی عمل نہ ہونے سے طالبان افغان حکومت سے نالاں ہیں جس سے افغانستان میں قیام امن میں دشواریاں درپیش ہیں۔

حالات کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان پر ڈو مور کا دباؤ بڑھتا جائیگا اور پاکستان کے مشیر قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف بھی اس بات کا ذکر کرچکے ہیں کہ ڈومور کا مطالبہ پاکستان کے ساتھ زیادتی ہے لیکن عالمی صورتحال پر نظر رکھنے والے ماہرین اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان پر ڈو مورکا دباؤ بڑھایا جائیگا اور اسی طرح امریکا کے سیکریٹری دفاع بھی اس بات کا برملا اظہار کرچکے ہیں کہ افغان طالبان پر بین الاقوامی قوتوں کو بھی اثر انداز ہونا ہوگا جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو امریکا کی مدد یا ڈومور کرنا ہوگا۔

افغان وزیرخارجہ حنیف اتمر بھی پاکستان کی طرف نظریں لگائے بیٹھے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ پاکستان افغانستان کی ہر لحاظ سے مدد کرسکتا ہے جس کا مطلب ڈومور ہی ہے۔پاکستان پر اس وقت دباؤ واضح نظر آرہا ہے اور اگر پاکستان نے اپنی بہتر خارجہ حکمت عملی کے تحت اس تاثر کو ختم کرنے کی کوشش نہ کی اور اگر ہم اپنے مؤقف پر قائم نہ رہے تو پاکستان کو آگے چل کر مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

پاکستان کیلئے غیر جانبدار رہنا آسان نہیں ہے کیونکہ اگر پاکستان افغان صورتحال میں غیر جانبداری کا فیصلہ کرتا ہے تو پاکستان کوآئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایف اے ٹی ایف کی طرف سے بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور بین الاقوامی قوتیں خاص طور پر امریکا اگر یہ کہتا ہے کہ پاکستان مدد نہیں  کررہا یا طالبان کی سپورٹ کا الزام لگاکر پاکستان پر پابندیاں بھی عائد کی جاسکتی ہیں جس سے پاکستان کی معاشی صورتحال انتہائی خراب ہوسکتی ہے اور خلیجی ممالک میں موجود پاکستان کی افرادی قوت کیلئے بھی دشواریاں پیدا ہوسکتی ہیں۔

طالبان روس اور دوحہ مذاکرات کے دوران یا دیگر جگہوں پر ملاقاتوں میں اس بات کا اعادہ کررہے ہیں کہ وہ القاعدہ کو افغانستان میں کام نہیں کرنے دینگے بلکہ القاعدہ اور داعش کو افغانستان سے اکھاڑ پھینکیں گے لیکن دوسری طرف افغان وزیر خارجہ یہ الزام لگارہے ہیں کہ القاعدہ اور داعش افغانستان اور پاکستان میں موجود رہے ہیں اور آنیوالے وقت میں یہ دہشت گرد گروہ اپنی کارروائیوں کو بڑھاسکتے ہیں۔

افغان وزیرخارجہ اور دیگر بہت سے بیانات میں یوں ظاہر کیا جارہا ہے کہ جیسے پاکستان یا افغانستان میں موجود عوام آگے چل کر خطے کیلئے خطرہ بن سکتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ روس، چین اور ایران سب کے سب اپنی توجہ ایک نکتے پر مرکوز کئے ہوئے ہیں اور اس بات پر متفق ہیں کہ وہاں  ایسے دہشت گرد عناصر افغانستان میں اگر موجود رہے تو وہ وسط ایشیائی ممالک، روس، چین ایران اور خطے کے دیگر ممالک کیلئے بھی مشکلات کا سبب بن سکتے ہیں۔

Related Posts