سیٹ اور اپ سیٹ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کبھی کبھی میاں نوازشریف کمال کی باتیںکرکے دل موہ لینے کی کوشش کرتے ہیں ،گذشتہ دنوں انہوں نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا آج تو ہم انگریزوں کی غلامی سے نکل کر اپنوں کی غلامی میں آ گئے ہیں۔

اپنے آپ سے پوچھیں کیاآپ آزاد شہری ہیں؟ وہ وقت دور نہیں جب تمام چیزوں کا حساب دینا ہوگا۔ دوٹوک فیصلہ کیا ہے کہ ذلت کی زندگی ہم نہیں جی سکتے۔ ظلم، زیادتیوں کے خلاف کھڑے ہونے کا قوم نے فیصلہ کرلیا تو تبدیلی چند مہینوں اور ہفتوں میں آجائے گی۔

نوازشریف کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمیں فخر ہے کہ ہمارے ساتھی جرات سے حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں، شہبازشریف نے بے مثال جرات وبہادری اور استقلال کا مظاہرہ کیا ہے، وہ مرد میدان ہیں، انہوں نے مشکلات کے سامنے سرنہیں جھکایا، ہمارے بیانیے کو تقویت دینے میں کردار ادا کیا، اور وفاداری و نظریاتی وابستگی کی مثال قائم کی، مشکل کو برداشت کرکے کردار اد اکریں گے تو قوم کو تمام مصیبتوں سے نجات مل جائے گی۔

دوسری طرف اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے اظہار برہمی کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے حوالے سے سخت ریمارکس میں کہا کہ ملزم حکومت اور عوام کو دھوکہ دے کر لندن گیا، اور لندن بیٹھ کر عوام اور حکومت پر ہنستا ہوگا، کل نواز شریف واپس آکر یہ نہیں کہہ سکتے کہ مجھے وارنٹ گرفتاری کا علم نہیں، ان کا بیرون ملک جانا پورے نظام کی تضحیک ہے، آئندہ وفاقی حکومت کو بھی خیال رکھنا چاہیے کہ کیسے کسی کو باہر جانے دینا ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اس ایک کیس کی وجہ سے باقی ہزاروں کیس التواء ہیں اور یہاں اس کیس میں وقت ضائع کر رہے ہیں، جتنی کوشش ایک مجرم کو وارنٹ پہنچانے میں لگ رہی کئی سائلین کو ریلیف دیا جاسکتا ہے، عدالت نے یہ بھی کہا کہ مجرم نواز شریف کا انتہائی شرمناک رویہ ہے۔ اسی عدالت نے العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے ہیں پاکستانی ہائی کمیشن کے نمائندے وارنٹس کی تعمیل کے لئے دوبار ایون فیلڈ اپارٹمنٹس جاچکاہے لیکن انہوں نے وارنٹ گرفتاری وصول کرنے سے انکار کردیا۔

کچھ واقفان ِ حال کا اس تناظرپر یہ تبصرہ ہے کہ میاں نوازشریف کا یہ لب ولہجہ بھی درحقیقت این آر او مانگنے کا ایک انداز ہے ابھی ان کے معاملات سیٹ ہوجائیں ان کا موجودہ بیانیہ ٹائیں ٹائیں فش ہو جائے گا اور آج میاں نوازشریف کی آواز کے ساتھ آواز ملاکرنعرے لگانے والوں کی حالت دیدنی ہوجائے گی ۔

ڈیل یا ڈھیل نہ ملنے کا یقین ہوجائے تو اس کے بعد طوطا چشمی کی انتہایہ ہے کہ ان سیاستدانوں کا لب ولہجہ ہی بدل جاتاہے یہ ساری باتوں، دعوؤں اوروعدوں کی طرف حکمران اس وقت مطلق توجہ نہیں دیتے جب وہ اقتدار کے مزے لے رہے ہوتے ہیں اس وقت تو ہرطرف ایسے ہرا ہرا نظر آتاہے جیسے ان کی آنکھوں میں سرسوں پھولی ہو اور مزے کی بات یہ ہے کہ جونہی وہ جوبھی اقتدارسے محروم ہوجاتے ہیں اسے ووٹ کی عزت بھی یاد آجاتی ہے۔

انہیں یہ بھی خیال ستانے لگتاہے کہ عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں،لوڈشیڈنگ نے ملکی معیشت کی مت مارکردکھ دی ہے،ٹیکسزنے لوگوں کا براحال کررکھاہے، ڈکٹیٹروں سے نجات دلائے بغیرملکی ترقی ممکن ہی نہیں لیکن یہ مسائل اسی وقت حل ہوسکتے ہیں جب وہ اقتدار میں ہوں پھر انہیں اپنے بیانئے کا شدت سے احساس ہوتاہے کہ یہی ایک تیزبہدف نسخہ ہے جو ملک میں راتوں رات دودھ اور شہر کی نہریں قائم کرسکتاہے سیاستدان اتنی بے شرمی ،ڈھٹائی اور چالاکی سے جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہیں کہ سادہ لوح ان پر یقین کرکے پھر انہی کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں ۔

تاریخ سب کے سامنے ہے پاکستان میں ہر سیاستدان فوج کی آشیربادسے حکمران بنا ہے یہ وہ سچ ہے جسے کوئی جھٹلانابھی چاہے تو نہیں جھٹلاسکتا پھر اپنے آپ کو حاجی لق لق ظاہرکرنا کس بات پر دلالت کرتاہے جس کے اپ سیٹ معاملات سیٹ ہوجائیں اس کا بیانیہ ہی نہیں چال ڈھال ہی بدل جاتی ہے پھر وہ جنہیں گالیاں نکالتاہے اسی کی پاک دامنی کے قصے سنارہاہوتاہے قوم کے ساتھ یہ ڈرامہ اور سنگین مذاق بندہونا چاہیے ۔

خفیہ ملاقاتیں کرنے والے کے منہ سے جمہوریت ،جمہوریت کی گردان اچھی لگتی قول و فعل کا تضاد ختم کئے بغیر جمہوری رویہ اور جمہوری نظام کبھی نہیں پنپ سکتا اور سچی بات تو یہ ہے کہ جمہوریت کے ساتھ یہ سنگین مذاق اس وقت تک بندنہیں ہوجاتا جب تلک ان جماعتوں کا اپنا سیٹ اپ جمہوری نہیں ہوتا کیونکہ جمہوریت موروثی سیات کا نام نہیں ہے۔

Related Posts