روس یوکرین جنگ، کون کس قیمت پر جیتے گا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

آج روس اور یوکرین جنگ کا 121واں روز ہے جس میں دونوں ممالک نے ہزاروں جانیں گنوائیں جبکہ جنگی حملوں اور بمباری کے باعث کروڑوں ڈالرز کا نقصان ہوا۔ دونوں ہی ممالک کی معیشت تباہی و بربادی کی جانب گامزن ہے۔

غذائی اجناس اور خوراک درآمد کرنے والے ممالک روس اور یوکرین کی جنگ کے باعث خوراک کی قلت کا شکار ہیں جس سے مہنگائی میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔ اربوں ڈالرز کے ہتھیار دنیا کے امن و استحکام کو نگلتے جارہے ہیں۔

دنیا بھر میں کساد بازاری عروج پر ہے۔ امریکا ڈالر کی شرحِ سود سے لطف اندوز ہونے میں مصروف ہے۔ اربوں افراد مصائب کا شکار ہیں جبکہ جنگ زدہ یوکرین کو اربوں امریکی ڈالرز کی فوجی امداد اور خوراک مہیا کی جارہی ہے۔

اس تمام تر کھیل کا حتمی نتیجہ یوکرین کی اقتصادی غلامی کی صورت میں برآمد ہوگا کیونکہ قارئین بخوبی جانتے ہیں کہ امریکا اور نیٹو کی فوجی امداد مفت نہیں ہوتی۔ یوکرین کو دی جانے والی تمام امداد سود سمیت واپس کرنا ہوگی۔

جنگ بندی کیلئے متعدد مواقع پر یوکرین روس کے ساتھ مذاکرات کیلئے راضی ہوا تاہم یہ عمل سبوتاژ ہوگیا۔ جنگ کئی ہفتے قبل بھی مذاکرات کے ساتھ ختم ہوسکتی تھی۔ لیکن پھر امریکا اور نیٹو ہار جاتے اور یوکرین کو بھاری قرض نہ لینا پڑتا۔

دونوں ہی ممالک کی معیشتیں کم مدتی جنگ کے بعد سدھاری جاتیں تو بحالی کے زیادہ امکانات ہوتے۔ دونوں جانب سے جانی و مالی نقصان بھی کم ہوتا تاہم یہ اچھی اچھی باتیں جنگ کرنے والوں اور ہتھیاروں کے سوداگروں کیلئے قابلِ قبول نہیں۔

برسوں سے یہ ممالک جنگ کو ہوا دینے کیلئے تیار تھے۔ نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے 20 جون کو پیر کے روز مغربی ممالک پر زور دیا کہ کیف کو جنگ کے دوران طویل مدتی فوجی، سیاسی اور اقتصادی مدد دینے کیلئے تیار رہیں۔

سیکریٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا  کہ ہمیں برسوں تک جنگ کیلئے تیار رہنا ہوگا۔ یوکرین کیلئے حمایت کمزور نہیں ہونے دیں گے چاہے زیادہ اخراجات آئیں۔ ہم فوجی امداد کے ساتھ ساتھ توانائی اور خوراک میں بھی مدد دیں گے۔

امریکی میڈیا ہو، مغربی یا ایشیائی، سب چینل جنگ میں روس کی کامیابیاں چھپا رہے ہیں۔ یقینی طور پر روسیوں اور ان کے خیر خواہوں کے حوصلے پست کرنے کیلئے ایسے اقدامات اٹھانے کی ان کی اپنی وجوہات ہیں تاہم روس پیچھے نہیں ہٹ رہا۔ 

محسوس ایسا ہوتا ہے کہ مغربی پراپیگنڈہ روس کے خلاف کارگر ثابت نہیں ہو پا رہا۔ یوکرین اپنی سرزمین کے بہت سے علاقے روس کے ہاتھوں کھو چکا ہے۔ مغرب کیلئے شرمناک بات یہ ہے کہ وہ روس کو کامیاب ہونے سے روک نہیں پا رہے۔

یہ مغرب کی ان امیدوں کی ناکامی ہےکہ روس تھک جائے  گا، روس خوفزدہ ہوجائے گا اور روسی حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے گا، صدر ولادی میر پیوٹن کو اپنے ہی لوگ قتل کردیں گے لیکن یہ تمام تر دعوے راکھ کا ڈھیر ثابت ہوئے۔

اگر اب جنگ کے اختتام کا اعلان کیا جاتا ہے تو یوکرین کو اپنی سرزمین کا کچھ نہ کچھ حصہ روس کے حوالے کرنا ہوگا اور عالمی برادری کو بھی اس سے اتفاق کرنا پڑے گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اسٹولٹن برگ نے سالہا سال تک لڑائی کی بات کی۔

نیٹو اور اتحادی ممالک کو روس سے اپنی شکست تسلیم کرنا ہوگی۔ جنگ کے باعث یوکرین کو کم و بیش 600 ارب امریکی ڈالر نقصان ہوا جس میں 195سے زائد کارخانوں کا غیر فعال ہونا، نصف کاروباری اداروں کی بندش اور دیگر کا کم صلاحیت پر کام کرنا شامل ہے۔

عالمی بینک  کا کہنا ہے کہ یوکرین کی معیشت 45 فیصد تک سکڑ جائے گی۔ ملک کی صنعتی صلاحیت اگر ماضی کی طرح بحال کرنی ہے تو بہت زیادہ رقم درکار ہوگی۔  کیا امریکا اور نیٹو واقعی یوکرین کی فوجی امداد جاری رکھیں گے؟

کیا یوکرین میں بڑھتی ہوئی  مہنگائی اور اندرونی پریشانیوں کو سالہا سال تک سہارا دیا جاسکے گا؟ ان تمام سوالات کا مثبت جواب دینا امریکا، نیٹو اور یورپی یونین ممالک کیلئے ناممکن سا لگتا ہے اور یہ تمام تر صورتحال مغربی ممالک کی ہٹ دھرمی سے پیدا ہوئی۔

موجودہ منظرنامے میں روس اور یوکرین کو ایسے امن معاہدے کے متعلق سوچنا ہوگا جو علاقائی رعایات فراہم کرے جس سے سفارت کاری کو فروغ ملے گا اور مزید مالی اور انسانی نقصانات سے بچنے میں آسانی ہوگی جبکہ یوکرین کی 82فیصد آبادی اس کے خلاف ہے۔

بعض اوقات زیادہ اچھے نتائج کیلئے غیر مقبول فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ سوال یہ نہیں ہے کہ کیا امن ممکن ہے؟ بلکہ اب سوال یہ ہے کہ کیا یوکرین اس کی قیمت ادا کرنے کو تیار ہے؟ اپنا کتنا علاقہ روس کو دینا ہے؟ کتنی آزادی ترک کرنی ہے؟

آج یوکرین کو سوچنا ہے کہ اسے آزادی و خودمختاری ملک کے کتنے حصوں کیلئے چاہئے؟ کچھ ایسا ہی سوال نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے کیا کہ آپ امن کی خاطر جمہوریت کا کون سا حصہ قربان کرنے کو تیار ہیں؟

ان کا خیال ہے کہ یہ بڑا مشکل اخلاقی معمہ ہے اور جو لوگ سب سے زیادہ قیمت ادا کرنے کیلئے تیار ہیں، وہ فیصلہ کریں۔ یقینی طور پر ایسے لوگ یوکرینی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ یوکرین کو پر یقین رہنا ہے جبکہ جنگ لڑنے والے ممالک کی جگہ جیت صرف بھاری فوجی سامان مہیا کرنے والوں کی ہوتی ہے۔ باقی سب ہار جاتے ہیں۔ جتنی جنگ طویل ہوتی ہے، اتنا ہی زیادہ نقصان ہوتا ہے اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ جنگ کا دورانیہ کم سے کم کیا جائے۔ 

Related Posts