جامعہ اردو کے وائس چانسلر خلاف ضابطہ، متنازعہ اور ادھورےفیصلے کرنے لگے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

وفاقی جامعہ اردو میں خلاف ضابطہ اور متنازعہ فیصلوں کا سلسلہ ایک بار پھر جاری، کینیڈا سے تعلق رکھنے والے وائس چانسلر قوانین اور ضوابط سے واقفیت نہیں رکھتے، ایک مخصوص گروہ کے زیر اثریونیورسٹی کے اداروں سے بالا ہی بالا من مانے فیصلے کئے جا رہے ہیں۔

جامعہ اردو کے نئے مستقل وائس چانسلر کینیڈین شہریت رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر اطہر عطاء نے یونیورسٹی میں رجوع بکار ہونے کے بعد اساتذہ کے ایک مخصوص گروہ کے زیر اثر خلاف قانون فیصلے کرنے شروع کر دیئے ہیں۔ ان کے من پسند اقدامات سے وفاقی آڈٹ، نیب اور ایف آئی اے میں مالی بے ضاطبگیوں کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں۔ بھاری بھرکم تنخواہ لینے والے وائس چانسلر نے منظوری کے بغیر الائونس بھی استعمال کرنا شروع کردیاہے ۔

جامعہ اردو میں اس وقت سب سے اہم معاملہ سلیکشن بورڈ کا ہے ، 2013 اور 2017 میں جاری ہونے والے اشتہارات کے مطابق منعقد ہونے والا سلیکشن بورڈ یونیورسٹی کا متنازعہ ترین سلیکشن بورڈ ثابت ہوئے ہیں۔ اس میں مخصوص اساتذہ نے جب چاہا جسے چاہا ترقی دے کر پروفیسر بنایا اور جس پر چاہا ترقی کا دروازہ بند کر دیا۔

قوانین کے مطابق کوئی بھی اشتہار6 ماہ تک قابل عمل رہتا ہے مگر اردو یونیورسٹی میں گذشتہ 9 اور7 سالوں سے ان اشتہارات پر عمل درآمد کیا جاتا رہا ہے۔ اس مرتبہ بھی سابق رجسٹرار ڈاکٹر صارم نے ان تمام شعبہ جات کے سیلکشن بورڈ منعقد نہیں کروائے جہاں مضبوط امیدوار موجود تھے اور سینیارٹی کی دوڑ میں ڈاکٹر صارم کا پیچھے رہ جانا یقینی تھا۔

موجودہ وائس چانسلر نے بھی شعبہ ریاضی، شعبہ فارمیسی، شعبہ معارف اسلامی اور شعبہ سندھی کے سلیکشن بورڈ کا انعقاد کئے بغیر نہ صرف باقی شعبوں میں اساتذہ کو تقرر نامے جاری کئے ہیں بلکہ اساتذہ کے لیے نیا اشتہار جاری کرکے عملی طور پر ان شعبوں کو ترقی کی دوڑ سے باہر کر دیا ہے۔

ذرائع کے مطابق ڈاکٹر حافظ ثانی اور ڈاکٹر عارفہ اکرام کی سینیارٹی کو متاثر کرنے اور ڈاکٹر صارم کو سینیر پروفیسر بنانے کے لیے ان اساتذہ کے شعبوں کا سلیکشن بورڈ کا انعقاد نہیں کر وایا جا رہا ہے۔ مذکورہ ادھورے سلیکشن بورڈ کے اعتراضات دور کئے بغیر انتہائی عجلت میں لیٹر جاری کرنے پر بھی اعتراضات سامنے آئے ہیں جس میں کہا جارہا ہے کہ عبدالحق کیمپس اور گلشن کیمپس میں اب تک ایسےدرجنوں افرادکو اسسٹنٹ پروفیسرز کے لیٹر جاری ہوئے ہیں جو مطلوبہ اہلیت نہیں رکھتے اور نہ ہی ایسوسی ایٹ اور پروفیسروں کی رپورٹس دستیاب ہیں اور ان میں متعدد اسسٹنٹ پروفیسرز پی ایچ ڈی ہی نہیں ہیں اور نہ ہی مذکورہ سلیکشن بورڈ کی رپورٹس سنڈیکیٹ اور سینیٹ میں پیش کرکے لیٹر جاری کرنے کی منظوری لی گئی ہے ۔

سابق قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاء القیوم نے ایک اخباری بیان میں کہا تھا کہ ایسوسی ایٹ اور پروفیسروں کے عہدوں کے لیے ریفری رپورٹس ریکارڈ میں موجود نہیں ہیں۔ ڈاکٹر صارم نے بھی ان رپورٹس کے اپنے پاس موجود نہ ہونے کا موقف اختیار کیا تھا۔ اس حوالے سے سابق وائس چانسلر اور ممبر ایچ ای سی ڈاکٹر ضیاء القیوم کا کہنا ہے کہ بعض جگہوں پر اور بعض شعبہ جات میں نان پی ایچ ڈی کو اسسٹنٹ پروفیسر بنائے جانے کی مثالیں موجود ہیں تاہم سائنس کے مضامین ، کمپیوٹر سائنس اور انجنیئرنگ سمیت بعض دیگر مضامین میں پی ایچ ڈی کو ہی اسسٹنٹ پروفیسر بنانا لازمی ہے ۔

جامعہ اردو میں اس وقت 6ڈیپارٹمنٹ میں 2013اور 2017کا سلیکشن بورڈ بھی نہیں ہوا ، جن میں ایسے ایسے اساتذہ بھی ترقی کے منتظر ہیں جن کے ماتحت 20سے زائد افراد نہ صرف پی ایچ ڈی کرچکے ہیں بلکہ ان کا تدریسی تجربہ بھی دو دو دہائیوں پر مشتمل ہے ، جن کی ممکنہ ترقی سے خائف سابق رجسٹرار و سیکرٹری سلیکشن بورڈ ڈاکٹر صارم نے ان کی رپورٹس ہی چھپا دی تھیں جس کی وجہ سے متعدد افسران اپنے جائز حق سے محروم رہ گئے ہیں جن میں صف اول میں بین الاقوامی شہرت کے حامل اور درجنوں ملکی سرکاری ایوارڈ یافتہ ڈاکٹر حافظ محمد ثانی بھی شامل ہیں ۔

سلیکشن بورڈ برائے 2013اور 2017کے انعقاد پر ایک بڑا عتراض یہ بھی ہے کہ 2021-22میں منعقد ہونے والے 9برس پرانے سلیکشن بورڈ کو 2013کے رولز کے مطابق منعقد کیا جائے گا یا ایچ ای سی کے حالیہ رولز کے مطابق سلیکشن بورڈ کا انعقاد تسلیم کرکے ان پر کوئی آڈٹ اعتراض کیا جائے گا نہ ہی ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے ان کی تنخواہ کی ادائیگی میں اعتراضات اٹھائے جائیں گے۔

جامعہ اردو کے سلیکشن بورڈ 2013اور2017میں رہ جانے والے ڈیپارٹمنٹ میں شعبہ ریاضی کے پروفیسر ، ایسوسی ایٹ پروفیسر اور اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ فارمیسی میں ایسوسی ایٹ پروفیسراور پروفیسر ، شعبہ اسلامک میں پروفیسراور ایسوسی ایٹ پروفیسر کے علاوہ شعبہ سندھی میں پروفیسر اور ایسوسی ایٹ پروفیسر ز شامل ہیں جن کو سلیکشن بورڈ 2013میں شامل ہی نہیں کیا گیا ہے ۔

واضح رہے کہ موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر عطا نے آتے ہی ماضی میں بیک وقت متعدد کمیٹیوں کی کنوینر رہنے والی صدر شعبہ نباتات ڈاکٹر زرینہ علی کو قائم مقام رجسٹرار تعینات کردیا تھا ، حیران کن امر یہ ہے کہ بیرون ملک سے آنے والے جامعہ کے بارےمیں نابلد ڈاکٹر اطہر عطا نے کسی سینئرپروفیسر کو رجسٹرار بنانے کے بجائے ایسی خاتون پروفیسر کا ہی انتخاب کیوں کیا جن کو انگریزی کے اشتہار جاری کرنے میں درجنوں غلطیاں تک نظر نہیں آئیں ۔

ڈاکٹر اطہر عطا نے دیگر سینئر ترین اساتذہ کی جائز شکایات سننے کے بجائے ایک اور خاتون کلرک سمعیہ بنت حاجی بخش رحیم کو8 برس بعد مستقل کردیا ہے ، جب کہ جامعہ میں اس وقت سینکڑوں ملازمین و افسران بھی نوکریوں کے مستقلی جیسے مسائل سے دورچار ہیں ، سمعیہ بنت حاجی رحیم بخش کو 4 ستمبر 2014 کو لیٹر نمبر 3486 کے تحت شعبہ امتحانات میں ان کی اعلی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے جونیئر کلرک (یومیہ اجرت) سے بی پی ایس پر بھرتی کی گئی تھیں۔

حیران کن امر یہ بھی ہے کہ جامعہ اردو کے وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر عطا نے 25 مئی کو جوائننگ دی اور اب 3 جولائی کو طویل رخصت پر چلے گئے ، جس کا مکمل طریقہ کا بھی نہیں اپنایا گیا ، وائس چانسلر اطہر عطا نے17جون کو وفاقی وزارت تعلیم کےذریعے درخواست ریفرنس نمبر VC/3095/22کے تحت صدر پاکستان کولکھی جس میں انوکھی منطق پیش کرتے ہوئے کہا کہ مجھے امریکا اور کینیڈا جانے کیلئے یکم جولائی سے 20جولائی تک کیلئے اجازت دی جائے ۔

درخواست میں مزید لکھا کہ امریکا اور کینیڈا کی اوہائیو ڈومینیکن یونیورسٹی کولمبس، اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی کولمبس، الیونس اسٹیٹ یونیورسٹی نارمل، ولفریڈ لیور یونیورسٹی واٹرلو، لیک ہیڈ یونیورسٹی، تھڈر بے اور برینڈن یونیورسٹی برینڈن ایم بی کی جانب سے خواہش کا اظہار کیا گیا ہے کہ وہ وفاقی اردو یونیورسٹی کے ساتھ مختلف پروگراموں میں باہمی تعاون چاہتی ہیں ۔اس باہمی تعاون و اشتراک میں آن لائن لیکچرہونگے ، گریجویٹ طلبہ کا ایکسچینج پروگرام ہو گا اوراساتذہ کے ریسرچ پروگرام میں بھی تبادلہ ہو گا ، اس کو باضابطہ بنانے کے لئے مجھے بیرون ملک سفر کی اجازت دی جائے ۔

حیرت انگیز طورپر جامعہ اردو کے سربراہ نے کینیڈا میں اپنوں کے ساتھ عید منانے کے لئے جانے کا دلچسپ بہانہ تشکیل دیا مگر اس کا کوئی ثبوت نہیں دیا اور ان 6 جامعات کی دلچسپی بھی ایسی جامعہ کے لئے ظاہر کردی جو کبھی بھی رینکنگ میں نمایاں نہیں رہی ۔ سوشل میڈیا پر اس چھٹی کی درخواست پر تبصرے کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بچوں کے بہانے نانی کے گھر جانے کے ہوتے ہیں اور وائس چانسلر کے گھر جانے کے بہانے بین الاقوامی جامعات کا جامعہ اردو سے اشتراک کی خواہش ظاہر کرنے جیسے ہوتے ہیں ۔

ماضی کے وائس چانسلر کو پیچھے چھوڑتے ہوئے جامعہ اردو کے کینیڈین وائس چانسلرڈاکٹر اطہر عطا کے سیکرٹری رحیم بخش کی جانب سے دفتر ٹریژرار کو ایک درخواست اپنے نام سے دی گئی جس میں کسی قانون ، اصول ، ضابطے ، متعلقہ اتھارٹی کی اجازت ، مشروط اجازت کا حوالہ دیئے بغیر لکھا کہ شیخ الجامعہ بین الاقوامی جامعات سے اشتراک کے سلسلے میں کینیڈا او ر وہاں سے امریکا جارہے ہیں لہذا ان کو ہوائی سفرکا ایک طرفہ ٹکٹ مبلغ 5 لاکھ  95 ہزار روپے کا بنام پراچہ میسرز ٹریلولز اینڈ  ٹورزجاری کیا جائے ۔

سوال اٹھایاجارہا ہے کہ اگر وی سی اپنے بچوں کے ساتھ عید منانے نہیں گئے تو ان کو یک طرفہ ٹکٹ کے بجائے دونوں طرف کا ٹکٹ جاری کیا جاتا تاکہ وہ اپنی تنخواہ سے بھاری بھرکم مالیت کا ٹکٹ واپسی پر اپنے ذاتی اخراجات سے نہ کرتے ۔تاہم اس وقت کینیڈا کا یک طرفہ ٹکٹ 3 لاکھ 40 ہزار روپے کا آرہا ہے تو ان کو کیسے  5لاکھ  95 ہزار روپے جاری کردیئے گئے؟ جبکہ پروفیسر ڈاکٹر اطہر عطا 2 جولائی کوقطر ایئر ویز کے ذریعے  2 لاکھ 95 ہزار روپے کے ٹکٹ پر کینیڈا کیلئے لاہور سے سفر کررہے ہیں ۔

واضح رہے کہ پروفیسر ڈاکٹر اطہر عطاء کینیڈا میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ مقیم ہونے کے باعث پہلے تو کم تنخواہ کے باعث جامعہ اردو آنے پر تیار نہیں تھے تاہم جب ان کی تنخواہ میں صدر عارف علوی نے 5 لاکھ کا خصوصی اضافہ کیا اور ان کی تنخواہ 12 لاکھ ہوئی تو وہ آنے پر رضا مند ہوئے لیکن جب ان کی تقرری کا نوٹیفکیشن ہوا تو اس کے بھی تین ماہ بعد انھوں نے 25 مئی کو جوائننگ دی اور ایک ماہ ایک ہفتے بعد پھر اپنے بچوں کے ساتھ عید منانےکینیڈا چلے گئے ہیں۔ ان کی تنخواہ تک جاری نہیں ہوئی مگر الائونسز بھی استعمال کرنے کا انوکھی مثال بنا گئے ہیں۔ .

وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر عطا سے موقف کیلئے رابطہ کیا گیاتاہم انہوں نے وٹس ایپ فون ریسیو نہیں کیا جس پر ان کو سوالات بھیج دیئے گئے جن کے جوابات آنے پر شائع کردیئے جائیں گے ۔

Related Posts