اسرائیل میں غزہ جنگ کیخلاف عوامی بغاوت سر اٹھانے لگی، نیتن یاہو کیلئے بڑی مشکلات

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

معاشرے کے تمام طبقات سے اب آوازیں اٹھ رہی ہیں، فوٹو عالمی میڈیا

اسرائیل میں جنگ مخالف تحریک عروج پر پہنچ گئی ہے۔ 1020 پائلٹس، 1800 پروفیسرز، 250 موساد اہلکار وغیرہ دستخط کرنے والوں میں شامل ہوچکے ہیں۔

عالمی میڈیا کے مطابق یہ ایک غیر معمولی منظرنامہ ہے، جس کی پوری اسرائیلی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ اسرائیلی معاشرے کے اندر ایک خاموش بغاوت تیزی سے پھیل رہی ہے، جو صرف فوج اور سیکورٹی اداروں تک محدود نہیں رہی، بلکہ معاشرے کی اعلیٰ ترین سطحوں تک پہنچ چکی ہے، جن میں ماہرینِ تعلیم، ڈاکٹرز اور ادیب بھی شامل ہوچکے ہیں۔ ان سب کا مشترکہ مطالبہ ہے کہ غزہ پر جنگ فوری طور پر روکی جائے اور اسرائیلی قیدیوں کو فوراً واپس لایا جائے۔

یہ احتجاجی لہر 9 اپریل کو اس وقت شروع ہوئی جب 1020 سے زائد پائلٹوں نے ایک ایسی عرضداشت پر دستخط کیے جس میں فوجی خدمات جاری رکھنے سے انکار کیا گیا۔ ان میں اسرائیلی فوج کے سابق چیف آف اسٹاف دان حلوتس بھی شامل تھے۔ یہ اقدام اعلیٰ فوجی افسران جیسے غی بوران اور کوبی دیختر کی دعوت پر سامنے آیا۔ جب ایک طرف اسرائیل کے ایلیٹ فوجی یونٹس جنگ کے اثرات سے لڑکھڑا رہے تھے، تو دوسری طرف 11 اپریل کو ممتاز اکیڈمک شخصیات نے بھی اپنی آواز بلند کی۔

جنگ مخالفین میں سے 1800 سے زائد اساتذہ اور محققین شامل ہیں، جن میں بن گوریون، تل ابیب اور جامعہ اریئیل جیسی یونیورسٹیوں کے سابق صدور بھی پیش پیش ہیں۔ یہ احتجاج الگ تھلگ نہیں، بلکہ برف کے گولے کی طرح بڑھتا گیا۔ ڈاکٹرز، بحریہ کے افسران، بکتر بند یونٹس کے فوجی، ریزرو فورس کے جوان، حتیٰ کہ نیشنل سیکورٹی کالج کے گریجویٹس تک، سب نے کھل کر اعلان کیا “ہم اس جنگ کو مسترد اور قیدیوں کی فوری واپسی کا مطالبہ کرتے ہیں۔”

یہ احتجاج حکومت اور فوج دونوں کے لیے درد سر بن گیا ہے۔ نتن یاہو حکومت اور فوج کو سب سے بڑا دھچکا اس وقت لگا جب احتجاج اسرائیل کے مشہور خفیہ ادارے “موساد” تک جا پہنچا۔ موساد کے 250 سابق ارکان جن میں تین سابق سربراہان بھی شامل ہیں نے کھل کر جنگ مخالف مؤقف اختیار کر لیا۔

یہ بغاوت اس قدر پھیل گئی ہے کہ اس نے شالداغ اور شیطت 13 جیسی اسپیشل فورسز، ریٹائرڈ پولیس افسران اور سابق پولیس کمشنرز کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اب یہ دستخط صرف علامتی بیانات نہیں رہے، بلکہ وہ اسرائیلی معاشرے کی گہری بے چینی اور تقسیم کا اظہار بن چکے ہیں۔

یہ صورتحال ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اسرائیلی قیدیوں سے متعلق مذاکرات تعطل کا شکار ہیں اور اندرونی سطح پر جنگ ختم کرنے کے لیے شدید دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ دستخط کرنے والوں میں نمایاں شخصیات شامل ہیں، جیسے کہ موساد کے سابق سربراہان دانی یاتوم، افرائیم ہاليفی اور تمیر باردو۔ اس کے علاوہ ممتاز ڈاکٹرز، محققین، یونیورسٹی پروفیسرز اور سابقہ فوجی و انٹیلی جنس افسران بھی اس تحریک کا حصہ ہیں۔

باوجود اس کے کہ ان افراد کے پیشہ ورانہ پسِ منظر مختلف ہیں، ان سب کا دو نکاتی مشترکہ مطالبہ ہے: ایک جنگ کو فوری طور پر روکا جائے اور دوسرا اسرائیلی قیدیوں کو غزہ سے واپس لایا جائے۔ لیکن ان احتجاجات کی معنویت صرف ان مطالبات تک محدود نہیں، بلکہ یہ اسرائیلی معاشرے کے اندرونی بگاڑ اور اعلیٰ طبقے میں گہرے شگاف کی غمازی کرتی ہے، وہ طبقہ جو برسوں تک اسرائیلی ریاست کی بنیاد اور اس کی پشت پر کھڑا رہا۔

واضح سیاسی راستہ نہ ہونے اور ثالثی کی کوششوں میں ناکامی کے باعث یہ خاموش بغاوت اب ایک ایسے گہرے انتشار کی علامت بن چکی ہے، جو ممکنہ طور پر اسرائیلی پالیسی سازی کے توازن کو تبدیل کر سکتا ہے۔

Related Posts