وزیرِ اعظم لاک ڈاؤن پر متذبذب کیوں؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

مہلک کورونا وائرس تقریباً ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے اور چین کے شہر ووہان سے نمودار ہونیوالا یہ خوفناک وائرس چین کےساتھ ساتھ امریکہ، ایران، اٹلی، برطانیہ سمیت یورپ و ایشیاء اور افریقہ میں اپنی تباہ کاریاں مچارہا ہے اب تک اس کے باعث 14 ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جبکہ 3 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہیں جبکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ  ہلاکتوں کا سلسلہ تواتر کےساتھ جاری ہے۔

چین کے بعد سب سے زیادہ متاثرہ ملک ایران اور اٹلی میں تو یہ عفریت ایک ایک دن میں سینکڑوں انسانی جانیں نگل رہا ہے اور اسکے ساتھ ساتھ ہمارے وطن میں بھی یہ خوفناک وائرس اپنے پنجے گاڑ چکا ہے۔

تادمِ تحریر ایک ڈاکٹر سمیت 6 افراد اس کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں جبکہ پورے پاکستان میں 800 سے زائد افراد میں اس موذی وائرس کی تشخیص ہوچکی ہے۔ اس سلسلے میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنی اپنی بساط کے مطابق حفاظتی اور انتظامی امور انجام دے رہی ہیں۔ جس میں اب تک سب سے فعال حکومتِ سندھ اور وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ سب سے متحرک نظر آتے ہیں جس لیے وہ بجا طور پر تعریف کے مستحق ہیں۔ 

انسانیت کے بدترین دشمن کوورونا وائرس سے نمٹنے کےلئے تمام ممالک نے اپنے اپنے وسائل کے مطابق اقدامات کئے ہیں۔ امریکہ جیسے سپر پاور ملک کی کئی ریاستوں میں مکمل لاک ڈاؤن ہے جبکہ اٹلی میں تقریباً 8 کروڑ باشندے لاک ڈاؤن کے باعث گھروں میں محصور ہیں ۔دیگر ممالک بھی لاک ڈاؤن سمیت ہر احتیاطی تدبیر اختیار کررہے ہیں اور واقفانِ حال کے مطابق اس موذی وائرس سے نمٹنے کےلئے طبی سہولیات کےساتھ  ساتھ اس کے پھیلاؤ کو روکنے کےلئے لاک ڈاون بھی ناگزیر ہے۔

اس تمام صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومتی سطح پر کورونا سے نمٹنے کےلئے وزیر اعظم عمران خان سمیت تمام صوبائی حکومتیں انتظامات کےساتھ ساتھ عوام میں آگاہی مہم بھی چلارہی ہیں جس میں میڈیا بہت اہم کردار ادا کررہا ہے۔ حکومتی اقدامات اپنی جگہ پر وزیر اعظم سمیت صوبائی وزرائے اعلیٰ اور تمام حکومتی مشینری عوام کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی مسلسل تلقین کررہی ہے۔

چند روز قبل وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے صرف 3 روز کےلئے عوام سے خود کو گھروں تک محدود رکھنے کی اپیل کی تھی جس کا خاطر خواہ نتیجہ نہ نکل سکا کیونکہ شہروں میں عجب مناظر نظر آئے۔ کہیں کرکٹ کھیلی جارہی ہے تو کہیں لوگ مرغوں کی لڑائی سے باجماعت محظوظ ہورہے ہیں تو کہیں سسرال اور میکے آیا جایا جارہا ہے۔

غرض یہ ہے کہ اٹلی کے باشندوں کی طرح ہمارے لوگ بھی حکومتی اپیلوں کو خاطر میں نہیں لائے جس کے باعث گزشتہ روز سے وزیرا علیٰ سندھ نے صوبے کو مکمل لاک ڈاؤن کرنے کا دلیرانہ فیصلہ کیا جس پر 23مارچ سے عملدرآمد شروع کردیا گیا جبکہ صوبہ پنجاب اور بلوچستان نے بھی فوج سے مدد طلب کرلی ہے اور ہر جگہ جزوی لاک ڈاؤن ہوچکا ہے تاہم وزیر اعظم پاکستان عمران خان اب تک ملک گیر لاک ڈاؤن کا فیصلہ کرنے میں تذبذب کا شکار ہیں۔

گزشتہ روز اپنے قوم سے خطاب میں انہوں نے ملک کی معاشی صورتحال کے پیش نظر لاک ڈاؤن نہ کرنے کا جو جواز بتایا کہ اگر لاک ڈاؤن کرتے ہیں تو ملک کے 25 فیصد غریب افراد جو کہ روزانہ محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں وہ روزگار اور دو وقت کی روٹی سے محروم ہوسکتے ہیں اور حکومت میں اتنی سکت نہیں کہ وہ تمام لوگوں تک خوراک پہنچاسکے۔ 

وزیرا عظم فرماتے ہیں کہ غریبوں کی خاطر ہم لاک ڈاﺅن نہیں کرسکتے لوگ خود ہی اپنے طور پر خود کو گھروں تک محدود کرلیں اور تمام احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ وزیر اعظم صاحب سے دست بستہ درخواست ہے کہ آپ کی یہ بات مان کر لوگ جب گھروں پر بیٹھ جائیں گے تو اس صورت میں بھی تو روزگار سے ہاتھ دھولیں گے۔

عرض یہ ہے کہ دونوں صورتوں میں دہاڑی دار غریب آدمی روزگار سے محروم ہوتا ہے اور ویسے بھی موجودہ بحرانی صورت میں جبکہ تعلیمی تجارتی ادارے  اور مارکیٹیں بند ہیں تو روزانہ اجرت پر کام کرنے والے شہری تو تقریباً بیروزگار ہوچکے ہیں اور مشکلات کا شکار ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق لاک ڈاؤن سب سے اہم احتیاطی تدبیر ہے جس کے بغیر اس موذی وائرس کو پھیلنے سے روکنا تقریباً ناممکن ہے۔

ہماری رائے میں وزیرِ اعظم کو نہیں بھولنا چاہئے کہ دنیا ہی نہیں کل کائنات کا رازق اللہ تبارک و تعالیٰ ہے اس کے بعد آپ حکمران کی صورت میں عوام کی جان و مال سمیت انکی صحت اور دیگر ضروریات کو پورا کرنے اور انہیں آسانیاں پہنچانے کے ذمہ دار ہیں۔ لہٰذا آپ اپنی تمام تر انتظامی صلاحیتوں اور حکومتی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے حوصلے کےساتھ مشکل ترین فیصلے کریں۔جفاکش پاکستانی قوم آپکا ساتھ دے گی۔ ویسے وزیر اعظم عمران خان خود ہی اس بات کا اکثر ذکر کرتے ہیں کہ پاکستانی قوم چیریٹی میں نمبر ون ہے اور انہوں نے کبھی مایوس نہیں کیا اور ان شاء اللہ اس مشکل گھڑی میں بھی نہ صرف ہمارے مخیر حضرات بلکہ عام آدمی بھی اپنے بھائیوں کےلئے کشادہ دلی کا مظاہرہ کریں گے بلکہ کررہے ہیں۔

حکومت کو چاہئے کہ  اپنے تمام وسائل کو اس نظر نہ آنے والے دشمن سے جنگ میں صرف کرے، مثلاً موجودہ حکومت نے غریبوں کےلئے جو انقلابی پروگرام شروع کئے ہیں وہ چاہے احساس پروگرام ہو یا صحت کارڈ ہو یا پرانا پروگرام بینظیر انکم سپورٹ جہاں سے بھی جو وسائل حاصل کئے جاسکتے ہیں اس موقعے پر استعمال کیے جائیں لیکن ملک گیر لاک ڈاؤن نہ کرنے کے فیصلے پر خدارا نظر ثانی کریں۔

یوں تو ہمیں شاید دیر ہوچکی ہے کہیں بہت دیر نہ ہوجائے کیونکہ اٹلی کی مثال ہمارے سامنے ہے وہاں بھی احتیاط اختیار کرنے میں ذرا سی تاخیر ہوئی تھی اور طبی ماہرین کے مطابق وہاں جو روزانہ اموات کی شرح بڑھی ہے اس میں وہ افراد لقمہ اجل بن رہے ہیں جو لاک ڈاؤن سے قبل اس مہلک وائرس کا شکار ہوئے تھے۔ خدانخواستہ ہمیں اگر اٹلی جیسی صورتحال کا 50 فیصد بھی سامنا کرنا پڑا تو ہمیں اور آپ کو معلوم ہے کہ ہمارے لئے سنبھلنا ناممکن کی حد تک مشکل ہوسکتا ہے کیونکہ ہمارے ملک میں صحت کا شعبہ بوجوہ بہت ناتواں ہے۔

دوسری جانب حکومت سندھ سے درخواست ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ نے جو دلیرانہ قدم اٹھایا ہے اس کے باعث عوام کی مشکلات کم سے کم کرنے کےلئے خوراک کی فراہمی اور اسکی ترسیل کو یقینی بنایا جائے اور ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری کو روکنے کےساتھ حسب ارادہ غریب لوگوں کی امداد کےلئے شروع کئے جانے والے اقدامات کو شفاف رکھنے کےلئے بھی اقدامات کئے جائیں اور سید مراد علی شاہ کے وعدے کے مطابق خوراک اور طبی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے اور عوام کو چاہیے کہ اس موذی بلا کی خوفناکی کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے حکومتی ہدایت کے مطابق تمام احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور سماجی فاصلہ اختیار کرکے خود کو گھروں تک محدود رکھیں اور لاک ڈاؤن کے دوران آنے والی مشکلات کا خندہ پیشانی سے سامنا کریں۔

یہ سب مشکلات ہماری اپنی زندگی کی حفاظت کیلئے  ہیں اس سلسلے میں حکومتی اقدامات کو کامیاب بنا کر ہی ہم اپنی اور اپنے پیاروں کی صحت اور زندگی کو محفوظ بناسکتے ہیں۔ گلگت کے نوجوان ڈاکٹر اسامہ کی شہادت کو سامنے رکھتے ہوئے جس نے کورونا کے مریضوں کے علاج کے دوران خود اس وائرس کا شکار ہو کر اپنی جان اپنے فرض پر قربان کردی اس قومی ہیرو کو زبردست خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ڈاکٹرز اور طبی عملے کی حفاظت کےلئے حفاظتی کٹ اور دیگر آلات کی فراہمی کو بھی یقینی بنائیں تاکہ ڈاکٹرز بے خوف ہو کر اپنے روایتی جذبے کےساتھ خدمات انجام دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔

 ڈاکٹرز ،نرسز اور دیگر طبی عملہ ہی ہے جو کہ اس عفریت کیخلاف جنگ میں فرنٹ لائن پر لڑرہا ہے انکی صحت اور زندگی کی حفاظت ہماری اوّلین ترجیح ہونی چاہیے۔ اس جہاد کے دوران بقول صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ کے، سیاست کو قرنطینہ میں رکھ دیا جائے اور تمام سیاسی جماعتیں اور سیاستدان خصوصاً اپوزیشن اتحاد و یگانگت کےساتھ قومی اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک کو درپیش اس عالمی چیلنج سے نمٹنے کےلئے اپنا کردار ادا کریں جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری حکومت کے ساتھ چلنے کا عندیہ دیکر سیاسی بلوغت اور سنجیدگی کا مظاہرہ  کرنے میں پہل کرچکے ہیں جو بہت خوش آئند ، حوصلہ افزاءاور قابل تقلید ہے۔

Related Posts