کیا یہی موروثی سیاست ۔۔۔ کیا یہی ہمارامقدر؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

جمعرات کے روز یعنی 27 جولائی کوقومی اسمبلی کے اجلاس کی صدارت حسبِ معمول راجہ پرویز اشرف کر رہے تھے جبکہ اجلاس کے ایجنڈے میں قانو ن سازی کیلئے 36 بلز موجود تھے جن میں سے 29 کو 1 گھنٹے میں منظور کر لیا گیا۔

اس عمل کو جمہوری نظام سے مذاق قرار نہ دیا جائے تو اور کیا کیا جائے؟ جبکہ عوام کے ساتھ اس قسم کا مذاق پارلیمانی تاریخ میں کوئی پہلی بار نہیں ہوا ہے!

موجودہ حکومت نے 7 جلدوں پر مشتمل بجٹ کی منظوری کیلئے بھی یہی راہ اپنائی  تھی کہ قانون سازوں کو 7 موٹی موٹی اور ضخیم جلدیں فنانس بل کی منظوری سے ایک رات قبل ہی دی گئیں تاکہ اگر کوئی ان کا مطالعہ کرنا چاہے بھی تو نہ کرسکے۔نومبر 2021ء میں پی ٹی آئی حکومت نے بھی 1 روز کے اندر اندر تیز رفتار ترین قانون سازی کرتے ہوئے 33 بلز منظور کرا لیے تھے جس سے پتہ چلتا ہے کہ قانون سازی کے عمل میں خود قانون سازوں یعنی اسمبلی اراکین کی اہمیت بھی آٹے میں نمک کے برابر ہے۔

قانون سازوں کو ویسے بھی کسی سیاسی پارٹی میں گفتگو یا فیصلہ سازی کا موقع کم ہی ملتا ہے اور ساتھ ہی بہت کم بصیرت آمیز قانون ساز پائے جاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی ہو، ن لیگ ہو یا تحریکِ انصاف ،  یہاں کسی ایک بھی پارٹی میں 8 یا 10  افراد ہی بولنے اور  پارٹی سربراہ سے قربت  داری کے حامل ہوتے ہیں اور  ان ہی  کو فیصلہ سازی کی بھی اجازت  ہوتی ہے۔ باقی پارلیمنٹیرینز کی حیثیت کاسمیٹکس کی سی ہے جو نظر تو آتے ہیں لیکن ان کا کوئی حقیقی کردار نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی پارٹی سربراہ انہیں حقیقی کردار دینے کیلئے رضامند ہوتا ہے کیونکہ ایسا کرنے سے ان پارٹی سربراہان کے اپنے مفادات متاثر ہونے لگتے ہیں۔  پہلے بھی قانون سازوں کی مرضی  کو ملحوظِ خاطر رکھے بغیر ہی قانون منظور کرائے جاتے تھے، آج کل بھی صورتحال اس سے کچھ مختلف نظرنہیں آتی جو انتہائی افسوسناک ہے۔ گزشتہ 3 دہائیوں سے آنے والی حکومتوں نے عوام کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کو نہ ہونے کے برابر اہمیت دی۔

موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف  ماضی کی  پنجاب حکومت میں  ایک متحرک وزیر اعلیٰ کے طور پر  تسلیم کیے جاتے ہیں تاہم موجودہ عہدے پر رہتے اور پی ڈی ایم کی درجن بھر پارٹیوں کو ساتھ لے کر چلتے ہوئے اس مختصر اور پرآشوب وقت میں  شہباز شریف کی کیا کیا سکت ہوسکتی ہے کہ وہ اتنے ہی متحرک نظر آئیں جتنے کہ وہ اپنی وزارتِ اعلیٰ کے دورمیں تھے اور جس طرح کی تیز ترین قانون سازی ماضی میں ہوتی رہی یا اب ہو رہی ہے ، وہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔

جب تک یہ نظام نہیں بدلے گا اور متوسط افرادجن میں الیکشن لڑنے کی سکت نہیں ، ان افراد کو فیصلہ سازی میں شامل نہیں کیا جائے گا، ملک میں جمہوریت کی جو حالت ہے، اس میں کسی بہتری کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ ایک سیاسی جماعت میں 10 سے زائد افراد فیصلہ سازی میں شامل نہیں کیے جاتے  تو ملک پر حکمران پانچ چھ پارٹیوں کے 50 سے 60 افراد ہی اس وقت ملک چلا رہے ہیں، باقی پارلمنٹیرینز ، اراکینِ اسمبلی اور سینیٹرز کی جو فوجِ ظفر موج نظرآتی ہے، اس کا کام محض بیان بازی کرتے ہوئے عوام کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹانا ہی رہ جاتا ہے۔

تاہم نظریاتی اعتبار سے یہ بحث ضروری ہے کہ  پسے ہوئے عوام کی  بنیادی  ضروریات   کس طرح پوری کی جائیں گی  اور اگر بلز اتنی عجلت میں منظور کیے گئے ہیں تو لگتا ہے کہ انہیں قائمہ کمیٹی نے ہی بغیر دیکھے آگے بڑھا دیا ہے جس کے بعد بلز پر ایوان میں بحث و تمحیص بھی ضروری  نہیں سمجھی گئی۔ اگر بل پر بحث و مباحثہ ہو تو عوام کو بھی پتہ چل جاتا ہے کہ کچھ قانون سازوں نے  ان بلز کو نہ صرف سمجھا ہے بلکہ ان میں ضروری ترامیم بھی تجویز کیں جو کہ جمہوریت کا اہم تقاضا ہے۔

یہاں سب سے اہم بات ملک میں موجود موروثی سیاست اور سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کی جگہ آمریت کا راج ہے ۔ وہی سب کچھ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھی نظر آتا ہے اور حقیقت یہ بھی ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے ملک پر یہی سوچ حکمرانی کرتی نظر آتی ہے۔

حقیقت یہ بھی ہے کہ اس وقت جیلوں میں موجود 98 فیصد افراد کا تعلق غریب ، پسماندہ اور متوسط طبقے سے ہے جن کی مدد کرنے والا کوئی نہیں، نہ ہی انہیں قانونی حقوق  حاصل کرنے کیلئے کوئی وسائل میسر ہیں۔ یہاں نواز شریف صاحب کی ہی مثال لی جاسکتی ہے کہ  جب نواز شریف وطن واپس آئیں گے تو ہمارے ملک کا قانون ہی انہیں تحفظ دے گا  کیونکہ ملک کا فوجداری نظامِ انصاف زیادہ تر بااثر سیاستدانوں کے حق میں فیصلے کرتا ہے۔

اس کیلئے کریمنل پراسیجر کوڈ کا چیپٹر 31 موجود ہے جس کے تحت نواز شریف حفاظتی  ضمانت بھی حاصل کر لیں گے، اپیل بھی کرسکیں گے،  الزامات سے بری بھی ہوجائیں گے اور پھر ملک کی سیاست میں باآسانی حصہ بھی لینے لگیں گے۔ جس طرح باقی کروڑوں اربوں کرپشن کے کیسز میں باقی سیاستدانوں کی جاں بخشی ہوچکی ہے، نواز شریف بھی یہ فوائد حاصل کرسکیں گے۔

جب نواز شریف وطن واپس آئیں گے تو عوام کیلئے تبدیلی یہ آئے گی کہ حکومت کرنے والے چہروں میں ایک جانے پہچانے چہرے کا مزید اضافہ ہو جائے گا جو پہلے سے ان کے ذہنوں میں محفوظ بھی ہوگا کیونکہ نواز شریف کم از کم 3 بار ملک کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ مہنگائی کے الزامات شہباز شریف حکومت پر لگیں گے اور یوں نواز شریف کو بڑے بھائی ہونے کے ناطے تمام تر مہنگائی کا سامنا کرنے  کا دعویٰ کرکے حکومت حاصل کرنے کی تگ و دو جاری و ساری  رکھنے کا موقع بھی میسر آسکتا ہے  تاکہ طاقت کا تمام تر سرچشمہ فیملی کے اندر ہی موجود رہے۔  بقول شاعر:

نظر کا تیر جگر میں رہے تو اچھا ہے

یہ گھر کی بات ہے، گھر میں رہے تو اچھا ہے

Related Posts