سیاسی ٹاکرے کا حتمی مرحلہ، عدم اعتماد سے کون فائدہ اٹھائے گا،نقصان کس کو ہوگا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان میں سیاسی کشیدگی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے اور اپوزیشن نے دو روز میں عدم اعتماد کا اعلان کیا ہے جبکہ وزیراعظم پاکستان عمران خان اپوزیشن کی جانب سے ممکنہ تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کیلئے اتحادیوں کو منانے کیلئے کوشاں ہیں ۔

حکومت تحریک کوکامیاب بنانے کے دعوے کررہی ہیں ۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اپوزیشن عدم اعتماد میں کامیاب ہوپائے گی اور اس رسہ کشی سے کس کو فائدہ اور کس کو نقصان ہوگا۔

تحریک عدم اعتماد
اپوزیشن جماعتوں نے وزیراعظم کے بجائے اسپیکر قومی اسمبلی کیخلاف پہلے تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو اسپیکر طویل وقت تک ٹال سکتا ہے جس سے اپوزیشن کو مشکلات پیش آسکتی ہیں۔

وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے ووٹنگ کے عمل میں طویل وقت لگ سکتا ہے جس میں اسپیکر اپنی مرضی سے اضافہ کرسکتا ہے۔ جتنا وقت گزرے گا اتنا ہی حکومت کو فائدہ ہوگا۔

80 کے اراکین کے دستخط
میڈیا رپورٹس کے مطابق اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد کا مسودہ تیار کرلیا۔ تحریک پر 80 سے زائد اپوزیشن اراکین کے دستخط ہیں۔پیپلزپارٹی، ن لیگ، جے یو آئی ف، اے این پی، بی این پی مینگل اور دیگر کے دستخط ہیں۔

مجوزہ مسودے میں کہا گیا کہ ملک اقتصادی زبوں حالی کا شکار ہے۔ ملک کو معاشی بحرانوں سے نکالنے کا کوئی روڈ میپ نہیں۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی صورتحال ہے، خارجہ پالیسی مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔

مجوزہ مسودے کے مطابق قائد ایوان اس ایوان کی اکثریت کا اعتماد کھو چکے ہیں، مذکورہ بالا صورتحال کے تناظر میں قائد ایوان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی جاتی ہے۔ اپوزیشن نے اسمبلی اجلاس بلانے کی ریکوزیشن بھی تیار کر رکھی ہے۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے چیمبر کو الرٹ کر دیا گیا۔ تحریک عدم اعتماد اور ریکوزیشن کسی بھی وقت جمع کروائی جا سکتی ہے۔

اسپیکر کیخلاف ووٹنگ
اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف ممکنہ تحریک عدم اعتماد میں خفیہ رائے شماری سے کام نہیں لیا جائے گا۔ منحرفین کے خلاف وفاداریاں تبدیل کرنے پر پابندی کی آئینی شق لاگو نہیں ہوگی۔

آئین کے آرٹیکل 226کے تحت وزیراعظم اور وزراء اعلیٰ کے علاوہ ایوان سے انتخاب خفیہ بیلٹ کے ذریعہ ہوگا۔ اپوزیشن حلقوں خصوصاً پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما خورشید شاہ نے اسپیکر اسد قیصر کے خلاف ممکنہ تحریک عدم اعتماد لانے کی بات کی ہے ۔ اس کی وجہ ان کےمطابق وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں پریذائیڈنگ افسر کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہوتاہے وہ جانتے ہیں تحریک عدم اعتماد لائے جانے میں غیر ضروری تاخیر مشکلات کا باعث ہو سکتی ہے۔

اپوزیشن کا دعویٰ
اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے دعویٰ کیاہے کہ اگلے 48 گھنٹوں میں تحریک عدم اعتماد لائی جائیگی، عدم اعتماد کی تحریک کی 100فیصد کامیابی کا یقین ہے۔

پی ڈی ایم سربراہ کاکہنا ہے کہ وہ سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیراعظم نواز شریف اورحکومتی اتحادیوں سے بھی رابطے میں ہیں۔ تحریک عدم اعتماد اور اجلاس کی ریکوزیشن دونوں ہی پر غور ہورہا ہے، ہماری لیگل ٹیم رابطے میں ہے، سارے امور کو دیکھا جارہا ہے جبکہ اپوزیشن نے اپنے تمام اراکین اسمبلی کو اسلام آباد فوری پہنچنے کی ہدایت کردی ہے۔

حکومت کی تیاریاں 
اپوزیشن کی جانب سے ممکنہ تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کیلئے حکومت بھی حرکت میں آچکی ہے اور وزیراعظم عمران خان خود اس حوالے سے خاصے متحرک دکھائی دیتے ہیں۔ وزیراعظم نے چند روز قبل اتحادی جماعت ق لیگ کی قیادت سے ملاقات کی جس میں میڈیا اطلاعات کے مطابق چوہدری برادران نے عمران خان کو مکمل طور پر ساتھ دینے کی یقین دہانی کروائی ہے جبکہ ایم کیوایم کا جھکاؤ بھی حکومت کی طرف واضح ہے۔

کس کا فائدہ کس کا نقصان ؟
چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے تحریک انصاف کے ایم این ایز کی حمایت کا دعویٰ کیا ہے جبکہ پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کا ایک بھی باضمیر رکن اسمبلی فروخت نہیں ہوگا۔وفاقی وزیرداخلہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک ملک کی بنیادیں ہلادیتی ہے۔

سیاسی رسہ کشی سے قطع نظر یہ بات مد نظر ضرور رکھنی چاہیے کہ پاکستان اس وقت عالمی تناظر میں انتہائی اہمیت اختیار کرچکا ہے ، روس یوکرین تنازعہ کے بعد عالمی برادری پاکستان کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے اور ایسے میں ملک میں سیاسی ہیجان دشمن قوتوں کو موقع دینے کا سبب بن سکتا ہے جس سے کسی سیاسی جماعت کو کوئی فائدہ ہویا نہ ہو لیکن پاکستان کو نقصان ضرور پہنچ سکتا ہے۔