زہریلی جڑی بوٹیاں

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ایک مشہور لطیفے کا کلائمکس کچھ یوں ہے کہ ہائے ہائے ! ابا حضور سچ کہا کرتے تھے کہ بیٹا جس چیز کو تمہاری اماں کے ہاتھ لگ جائیں اس سے برکت اٹھ جاتی ہے۔ ہماری اسٹیبلیشمنٹ کو بھی من جانب اللہ یہ خوبی عطاء ہوئی ہے کہ جس تنظیم کو اس کے ہاتھ لگے اس سے برکت ضرور اٹھی اور فساد ضرور پیدا ہوا۔ آپ مذہبی چھوڑئیے سیاسی جماعتوں میں سے بھی تشدد کی راہ صرف ان جماعتوں نے ہی اختیار کی جن کی پیدائش آنٹی اسٹیبلیشمنٹ کے بطن سے ہوئی تھی۔ مثلا ایم کیو ایم کے دونوں دھڑے۔ جب بھی کسی عوامی مظاہرے کے دوران غریب کی موٹر سائیکل، رکشہ یا ٹھیلہ نذر آتش ہوتے دیکھیں گے تو ایسا کرنے والی جماعت آپ کو اسٹیبلیمشنٹ سے منسوب ملے گی۔ سو یہ بات تحقیق طلب ہے کہ ان جماعتوں کو تشدد کی راہ پر کون ڈالتا ہے ؟ کیا یہ ان کی جینز میں موجود کوئی مسئلہ ہے یا اس کا انہیں باقاعدہ اشارہ دیا جاتا ہے ؟ ابھی رمضان سے عین قبل تک اس ملک میں کئی ماہ ہم نے پی ڈی ایم کی تحریک دیکھی ہے۔ ہر چھوٹے بڑے شہر میں جلسے بھی ہوئے، جلوس اور ریلیاں بھی نکلیں۔ خاص طور پر لاہور جلسے سے قبل تو مریم نواز تقریباً روز ہی لاہور میں ریلیاں نکالتی نظر آئیں۔ کہیں کوئی تشدد یا فساد نہیں پھوٹا۔ کسی نے پولیس افسران پر ہاتھ نہیں اٹھائے۔ لے دے کر ایک ملتان میں کشمکش ہوئی مگر وہاں بھی کوئی تشدد نہ ہوا بلکہ افرادی قوت کے زور پر پرامن سیاسی سرگرمی کی گئی۔ پویس نے کچھ ورکرز کو گرفتار بھی کیا اور پھر رہا بھی کردیا۔ اور یہ پکڑنا اور چھوڑنا سیاسی سرگرمیوں کا حصہ ہوا کرتا ہے۔ چونکہ پی ڈی ایم جماعتوں کے ورکرز نے پولیس پر ہاتھ اٹھانا تو کجا تو کوئی توڑ پھوڑ یا فتنہ فساد بھی برپا نہیں کیا تھا سو پولیس نے بھی ان کے حراست میں لئے گئے ورکرز کی کوئی چھترول کی اور نہ ہی کوئی ویڈیو وائرل ہوئی۔ پی ڈی ایم سے قبل جے یو آئی کے لانگ مارچ نے قومی سیاست پر نئی مثبت روایات کے شاندار اثرات مرتب کئے۔

لیکن جب بھی کوئی ایسی سیاسی یا مذہبی جماعت مظاہرے، ریلی، یا دھرنے کی کال دیتی ہے جو اس ملک کی ان مین سٹریم جماعتوں میں سے نہیں ہوتی جن کی اپنی ایک مستحکم سیاسی تاریخ ہے تو والدین بچوں کو گھر پر رہنے کی تلقین پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ایک خاص قماش کی ان تنظیموں کو امن و امان اور انسانی جان و مال کی حرمت سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ یہ وہ سنگدل درندے ہوتے ہیں جو نسل یا فرقے کے نام پر کاروبار خاکستر اور انسانی حرمت پائمال کرنے سے باز نہیں آتے۔ آپ ان کے لیڈروں کے الفاظ کا چناؤ اور لب و لہجہ ہی نہیں بلکہ القابات ہی دیکھ لیں تو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگتی کہ امن دشمنی ان کے ایجنڈے کا باقاعدہ حصہ ہے۔ مثلا جرنیل صحابہ یا مجاہد ختم نبوت وغیرہ۔ جرنیل اور مجاہد دونوں ہی ٹائٹلز کا تعلق اس میدان جنگ سے ہے جہاں آگ اور خون کے دریا بہتے ہیں۔ جہاں ہر چیز جل کر خاکستر ہوچکی ہوتی ہے اور جہاں ویرانی کے ملبے سے بے امانی کے دھویں بلند ہو رہے ہوتے ہیں۔ سو یہ سوال تو بنتا ہے کہ کراچی ، لاہور، اسلام آباد اور پشاور کی سڑکوں پر یہ پرائیویٹ جرنیل اور مجاہد کس ملک سے لڑنے نکلتے ہیں ؟وہ کون ہے جسے  یہ اپنے جرنیلی اور جہادی ٹائٹلز کے ذریعے فتح کرنے کا عزم رکھتے ہیں ؟

حالیہ دنوں میں جو نام نہاد مجاہد ختم نبوت ملک کی شاہراہوں پر نکلے، انہوں نے تو غریب کے رکشے اور موٹرسائیکل ہی جلائے ہیں۔ کیا رکشے کسی دشمن ملک کے ٹینک تھے جو لبیک کے مجاہدوں نے سینے پر بم باندھ کر اڑا کر رکھ دئیے؟ وہ جو پیٹ پیٹ کر زخمی ہی نہیں بلکہ آن کیمرہ ذلیل و رسوا کئے گئے وہ پولیس افسر کیا بھارت یا اسرائیل کے تھے؟ یہ کہاں کی شرافت ہے کہ آپ دین اسلام کے جنگی ٹائٹل اختیار کرکے اپنے ہی ملک میں فساد برپا کرکے یہ خوش فہمی پالیں کہ آپ فرانس کو فتح کر رہے ہیں؟ کوئی بتا سکتا ہے کہ پچھلے ایک ہفتے کے دوران فرانس کا ان فسادیوں نے کتنا نقصان کیا ہے ؟ ایک ٹکے کا بھی اس کا نقصان نہیں کرپائے۔ جو بھی نقصان کیا ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان اور اس کے شہریوں کا ہی کیا ہے۔ اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ پولیٹکل مین سٹریم کے کناروں پر پھیلی یہ زہریلی جڑی بوٹیاں فقط سیاست کو آلودہ رکھنے کے لئے اگائی گئی ہیں۔ کچھ غیر سیاسی قوتیں جب چاہتی ہیں کسی بھی سول حکومت کے خلاف انہیں استعمال کرکے ملک کو فسادات سے دوچار کر دیتی ہیں۔ اس ضمن میں اب مین سٹریم سیاسی جماعتوں کو ہی اپنا کردار ادا کرکے ان کا سد باب کرنا ہوگا۔ کیونکہ ان متشددین کی پرورش انہی کے خلاف کی جاتی ہے۔ ریاست انہیں کالعدم قرار دے کر پولیس مقابلوں میں تو پھڑکا دیتی ہے مگر ان کی مکمل بیخ کنی نہیں کی جاتی۔ ان کی جڑیں باقی رکھی جاتی ہیں۔

اس ملک میں نئی تنظیم بنا کر رجسٹرڈ کرانا موٹر سائیکل رجسٹر کرانے سے زیادہ آسان ہے۔ کوئی بھی للوپنجو اٹھ کر خود کو قائد ڈیکلئر کرکے ایک جماعت بناتا ہے اور اگلے دن سے اپنے حصے کا فساد برپا کرنا شروع کر دیتا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ اب پہلے سے موجود جماعتوں کو بھی چھانٹی کیا جائے اور آئندہ کے لئے بھی ان فسادی جماعتوں کی رجسٹریشن پر پابندی لگائی جائے۔ پارٹی بنانے کی اجازت اسی کو دی جائے جس کے پاس قومی سطح کی مثبت شناخت رکھنے والے دس معتبر لوگ ہوں۔ اور اس کے مجوزہ منشور سے فسادی بو نہ آتی ہو۔ مثلا اگر ایک تنظیم کے نام یا منشور میں دفاع جیسا لفظ نظر آ رہا ہے تو اس کا صاف مطلب ہے کہ یہ پنگے بازی کا ایجنڈا رکھتی ہے۔ آخر ایک جنگی لفظ ان کے منشور یا نام میں کیا کر رہا ہے ؟ عجیب تماشا نہیں کہ جو شخص اپنے موبائل فون کی حفاظت کرنے پر بھی قادر نہیں اس کا بھی یہ دعویٰ ہے کہ وہ ناموس رسالت کی حفاظت پر مامور ہے۔ یہ تماشے اب بند ہونے چاہئیں۔

ایک ضروری گزارش: ادارے کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

Related Posts