وکٹ کے دونوں طرف کھیل

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کو پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں 15 نشستیں جیتنے پر مبارکباد، دیتے ہیں جو ان کی توقعات سے 50 فیصد زیادہ ہے۔ اسے ملک کی حالیہ سیاسی تاریخ کا ایک اور معجزہ قرار دیا جاسکتا ہے اور فی الحال یہ واضح نہیں کہ اس کے پیچھے کون ہے۔

تحریکِ انصاف اور ق لیگ کے مشترکہ امیدوار چوہدری پرویز الٰہی بھی وزیر اعلیٰ بن گئے جبکہ وزیر اعلیٰ کیلئے اندرونِ خانہ پولنگ کی توقع 22 جولائی 2022 کو کی جارہی تھی۔

ہوا کچھ یوں کہ اتوار کے روز منعقدہ ضمنی انتخابات سے پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 178 اور مسلم لیگ (ق) کے 10 اراکین کے ساتھ نمبر گیم یکسر تبدیل ہوگئی۔ دو جماعتی اتحاد کے اراکین کی تعداد 188 ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) اتحاد کی تعداد 179 بنتی ہے اور اسی اتحاد نے پرویز الٰہی کو وزارتِ اعلیٰ کی پولنگ میں کامیاب کیا۔

یہ پاکستانی سیاست میں ایک اور معجزہ ہے جس سے موجودہ وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز کو اپوزیشن بینچوں کی طرف دھکیل دیا گیا اور وہ اپنی وزارتِ اعلیٰ سے محروم ہو گئے ہیں۔

ن لیگ کی جانب سے بڑی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شکست تسلیم کر لی گئی۔ پاکستانی سیاست کی تاریخ میں پہلی بار ہارنے والی پارٹی نے الیکشن میں دھاندلی کی سازش کا الزام جیتنے والے یا فوج پر نہیں لگایا جسے ایک اور معجزہ قرار دیا جاسکتا ہے تاہم وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ کے عہدے کیلئے پولنگ تک کچھ بھی ہوسکتا ہے، اس لیے انتظار کریں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ صرف سیاستدان ہی ایک دوسرے کے ساتھ بغیر کسی پوشیدہ حمایت کے جمہوری یا غیر جمہوری کھیل، کھیل رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے اور مجھے پختہ یقین ہے کہ کچھ قوتیں ایک پارٹی کیلئے جیتنے والی چالوں کے ساتھ وکٹ کی دونوں طرف سے کھیل رہی ہیں۔

ن لیگ اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے مابین بڑھتی ہوئی دراڑیں اب کوئی راز نہیں رہیں۔ واقعات اور حقائق کے واضح طور پر ثابت ہونے کے باوجود کچھ ن لیگی رہنما اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت کی کوشش کر رہے تھے۔ انہوں نے سابق وزیر اعظم عمران احمد نیازی (المعروف عمران خان) کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد سے قبل بھی جدوجہد جاری رکھی۔ جدوجہد کرنے والے مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کا خیال تھا کہ انہیں حکومت بنانے کیلئے اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے منظوری مل چکی ہے۔ جی ہاں، ایسا اس لیے ہوا کہ وردی والے اہلکاروں کو اپنے نیلی آنکھوں والے گھوڑے کو بچانا تھا جو بڑھتی ہوئی مہنگائی اور قرضوں، دوست ممالک سے تیزی سے بگڑتے تعلقات اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی پشت پناہی سے نالاں تھا۔ پی ٹی آئی عوامی اعتماد کھو چکی تھی۔ پاکستان نے سفارت کاری کے انتہائی غلط ہتھکنڈوں کے ذریعے امریکا کو ناراض کردیا تھا۔

دریں اثناء مسلم لیگ (ن) اور اتحادی سیاسی جماعتوں، جو ن لیگ کے سیاسی مخالفین ہیں، ان کے ایک غیر فطری فیصلے نے موجودہ حکومت کو پی ٹی آئی کے سیاسی خسارے اور غلط سفارت کاری کا بوجھ اٹھانے پر مجبور کردیا اور صرف 3 ماہ میں پنجاب میں حکومت کھونے کے بعد اسلام آباد میں بھی مخلوط حکومت کا ہنی مون بہت جلد اختتام کو پہنچنے والا ہے۔

بدلتے ہوئے سیاسی منظر نامے پر ایسے اشارے دیکھنے کو مل رہے ہیں کہ چھوٹی سیاسی جماعتیں قومی اسمبلی میں ایک اور تحریکِ عدم اعتماد لانے کیلئے تحریکِ انصاف سے ہاتھ ملا لیں گی۔ ن لیگ کے سابق صدر اور ملک کے موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کو وزارتِ عظمیٰ سے محروم کرنے اور ن لیگ کے سیاسی قد کاٹھ کو نقصان پہنچانے کیلئے ہی یہ سارا ڈرامہ رچایا گیا تھا۔

محسوس ایسا ہوتا ہے کہ تاریک مستقبل ن لیگ کا منتظر ہے جبکہ آصف علی زرداری کے چہرے سے ان کی سیاسی جیت کی خوشی نمایاں ہے جو اپنی زندگی میں ہی اپنے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری کو ملک کا وزیر اعظم بنانے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ اب بلاول وزیر اعظم بنتے ہیں یا نہیں، یہ الگ بات سہی لیکن پی ڈی ایم میں شامل سیاسی جماعتوں نے مل جل کر مسلم لیگ (ن) کا سیاسی مستقبل تاریک کردیا۔

دلچسپ طور پر اسٹیبلشمنٹ نے وکٹ کی دونوں جانب سے خوب کھیل کھیلا۔ سب سے پہلے 2018 میں پی ٹی آئی کی جیت اور اب سیاسی عوامی ساکھ دوبارہ حاصل کرنے پر تالیاں ہی تالیاں۔ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان آئندہ نومبر میں تمام انتہائی اہم تقرریوں کیلئے تیار ہیں جو پی ٹی آئی کے طویل مدتی سیاسی استحکام کیلئے مثبت اشاریہ ثابت ہوں گے۔ مستقبل میں کسی بھی وقت یہ بات سامنے آئے گی کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے اور امریکا مخالف نعروں کا مقصد اپنی کھوئی ہوئی سیاسی ساکھ بحال کرنا تھا جبکہ یہ سب ریاستی اداروں نے قومی مفادات کی قیمت پر اپنے نیلی آنکھوں والے گھوڑے کو عوامی ہیرو بنانے کیلئے کیا۔

پی ٹی آئی کی جانب سے ن لیگ کی سابقہ حکومت کے خلاف دھرنوں کے بعد سے پاکستان کو معاشی و خارجہ پالیسی کے محاذوں پر بڑا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ اس کے اسباب و مقاصد عوام کو اچھی طرح معلوم ہیں۔ ان سب کو یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک بار پھر حقیقی کھلاڑیوں کی جانب سے دونوں طرف سے کھیلنے کی ایک کامیاب کہانی سامنے آئی جو پاکستانیوں کیلئے کوئی نئی بات نہیں۔ حتیٰ کہ عالمی طاقتوں کو بھی یہ سب کچھ معلوم ہے۔

اگر آپ کو یاد ہو تو 1980ء کی دہائی میں امریکا چیخ رہا تھا کہ صدر جنرل ضیاء الحق وکٹ کی دونوں جانب سے کھیل رہے ہیں اور کچھ ایسے ہی بیانات جنرل پرویز مشرف کے خلاف بھی دہرائے گئے۔ کچھ سیاستدان اور کچھ سرگرم کھلاڑی آج بھی ایسا ہی کر رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر کھیلنا ہی ہے تو منصفانہ کھیل پر توجہ دی جائے اور یہی عمل ہی پاکستان میں جمہوریت کی مضبوطی کا باعث بنے گا۔ 

Related Posts