پی ڈی ایم کا نرم اور گرم

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سیاست کے آرٹ میں نرم اور گرم دونوں لہجوں کی اس درجہ اہمیت ہے یہ پورا آرٹ اس پر کھڑا ہے۔ یہ حالات پر منحصر ہوتا ہے کہ کب کونسا لہجہ اختیار کرنا ہے۔ پھر درجہ حرارت کا لیول بھی مستقل اہمیت رکھتا ہے۔ ان لہجوں کا برمحل استعمال کامیابی کا ضامن بنتا ہے جبکہ غلط استعمال نقصان کا باعث بنتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہر بڑی سیاسی جماعت کے پاس سیکنڈ اور تھرڈ کمانڈ لائن میں ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جو جارحانہ لہجے میں بات کرنے کی شناخت رکھتے ہیں اور ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی پہچان ان کا نرم لہجہ اور مصالحانہ رویہ ہوتا ہے۔

بالعموم سیکنڈ کمانڈ نرم لہجے کی حامل ہوتی ہے لیکن اس میں بھی ایک دو ایسے افراد ہوتے ہیں جو خواجہ سعد رفیق خواجہ آصف کی طرح گرم لہجہ بھی اختیار کرسکیں جبکہ تیسری صف کی قیادت بالعموم گرم خون پر مشتمل ہوتی ہے مگر اس میں ڈاکٹر مصدق جیسے نرم گفتار بھی پائے جاتے ہیں۔

اگر حالات ٹھیک جا رہے ہوں تو نرم لہجے والے ہی پارٹی پالیسی بیان کرنے اور اس کا دفاع کرنے پر مامور ہوتے ہیں لیکن اگر حالات ایسے آجائیں جن کا سامنا نواز حکومت نے پناما اسکینڈل کی صورت میں کیا تو پھر نرم لہجے والے صف دوم کے قائدین کو پیچھے کرکے تیسری صف کی لڑاکا فورس کو آگے کردیا جاتا ہے۔

سو یہ پارٹی لیڈر پر منحصر ہوتا ہے کہ کب احسن اقبال اور خرم دستگیر کو آگے رکھنا ہے، کب انہیں پیچھے بلا کر دانیال عزیز اور طلال چوہدری کو آگے کرنا ہے اور کب انہیں بھی پیچھے بلا کر خود لیڈر کو سخت زبان کے ساتھ سامنے آنا ہے۔

جب لیڈر خود جارحانہ اننگز کا فیصلہ کرتا ہے تو وہ ذیلی قیادت کو سخت لہجے سے لازماً روک دیتا ہے کیونکہ لیڈر یہ افورڈ نہیں کرسکتا کہ اس کا کوئی ہمنوا نادانی میں کوئی ایسی سخت بات کہہ جائے جو سارا کھیل بگاڑ دے۔

چنانچہ ہم نے دیکھا کہ جب نواز شریف وزارت عظمیٰ چھوڑنے کے بعد جارحانہ موڈ کے ساتھ سامنے آئے تو جب تک وہ پاکستان میں تھے مریم نواز، دانیال عزیز، طلال چوہدری وغیرہ کو پیچھے کرلیا اور اب جب وہ لندن سے جارحانہ انگز کھیل رہے ہیں تو میدان میں فرنٹ پر مریم نواز کی صورت جارحانہ موجودگی رکھی ہے۔

وہ مریم سے زیادہ بات کرا رہے ہیں کیونکہ میدان میں وہ کھڑی ہیں جبکہ خود صرف بہت اہم مواقع پر سخت تقریر کرکے یہ بات یقینی بنا رہے ہیں کہ مریم کا سخت لہجہ انہی کا لہجہ ہے، جو وہ کہہ رہی ہیں اسے نواز شریف کا کہا ہی سمجھا جائے۔

اگر نواز شریف اس رواں عرصے میں پاکستان میں ہی ہوتے تو وہ مریم نواز کو پیچھے کرکے خود ہی ہر جگہ لیڈ کرتے اور مریم کو رکھتے بھی خاموش۔

اس پس منظر کو ذہن میں رکھ کر اب آیئے پی ڈی ایم کی موجودہ تحریک میں اہداف کے حصول کے لئے نرم اور گرم دونوں رویوں کے فنکارانہ استعمال کا جائزہ لیتے ہیں جس سے اس تحریک کا تجزیہ کرنے میں مدد ملے گی۔

اگر ہم پی ڈی ایم کا جائزہ ایک اکائی کے طور پر لیں تو سیاسی قاعدے کے مطابق اس کے نرم اور گرم لہجے شناخت کرکے تحریک کے دوران ان کے رول کو بارک بینی کے ساتھ دیکھنا ہوگا۔

اب تک کا مشاہدہ یہ بات پوری طرح واضح کرچکا ہے کہ نواز شریف، مولانا فضل الرحمن اور مریم نواز پی ڈی ایم کے سخت لہجے ہیں اور تحریک کو لیڈ یہی سخت لہجے کر رہے ہیں۔

بلاول زرداری ایک تقریر قدرے سخت تو دوسری نرم کر رہے ہیں۔ وہ وقتاً فوقتاً میڈیا سے بات چیت یا انٹرویو کی صورت ایسا سگنل بھی دے جاتے جس سے مخالف کیمپ کو نرمی کا تاثر ملتا ہے۔

یوں گویا وہ یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ ان کے پاس مکمل نرم یا مکمل گرم ہونے کا آپشن موجود ہے اور ظاہر ہے ان میں سے کوئی ایک حتمی آپشن موقع و محل کے مطابق ہی اختیار ہوگی۔

یہ موقع و محل یوں سامنے آسکتا ہے کہ اگر حریف کی جانب سے مصالحت کی راہ اختیار ہوتی ہے تو بلاول مکمل نرم ٹون میں چلے جائیں گے اور اگر وہاں سے ضد کا مظاہرہ جاری رہا تو بلاول مکمل سخت لہجہ اختیار کر لیں گے۔

پی ڈی ایم کی مکمل ٹھنڈی تار آصف علی زرداری ہیں جو فون قریب رکھ کر پورے اطمینان کے ساتھ اس لمحے کا انتظار کرتے آئے ہیں جب گرم لہجوں کے ٹھوس نتائج ظاہر ہونا شروع ہوں۔

آثار سے صاف پتہ چل رہا ہے کہ وہ لمحہ آچکا ہے۔ نواز شریف، مولانا فضل الرحمن اور مریم نواز کی شدید گولہ باری حریف کو مذاکرات کی میز پر آنے کے لئے اس حد تک مجبور کرچکی ہے کہ پی ڈی ایم مذاکرات نہ کرنے کی بات کر رہی ہے مگر حریف مسلسل مذاکرات پر زور دے رہا ہے۔

نہ صرف یہ کہ اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے محمد علی درانی اعلانیہ امن کا جھنڈا لئے سرگرم ہیں اور دونوں جانب پیغام رسانی کر رہے ہیں بلکہ اطلاع یہ بھی کہ آصف علی زرداری کا وہ فون بھی بج چکا ہے جو انہوں نے تحریک کے آغاز سے بہت قریب رکھا ہوا تھا۔

آصف علی زرداری اس ٹیلیفون کال کے حوالے سے نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن دونوں کو اعتماد میں لے چکے ہیں اور اسی کے نتیجے میں پی ڈی ایم کی جانب سے زرداری صاحب کو ان ہاؤس تبدیلی کی صورت معاملات آگے بڑھانے کا ٹاسک دے کر استعفوں کا آپشن مؤخر کردیا گیا ہے۔

جو لوگ استعفوں کے معاملے پر پی ڈی ایم کے ٹوٹنے کا امکان ظاہر کر رہے تھے وہ سیاست کے فن سے نابلد معلوم ہوتے ہیں۔ یہ بات پی ڈی ایم پہلے ہی روز واضح کرچکی ہے کہ اس کی تحریک عمران خان کو لانے والوں کے خلاف ہے۔

سو نتائج کے باب میں پی ڈی ایم کی نظر بھی انہی کی جانب ہے لیکن شطرنج کے اس کھیل میں پی ڈی ایم ٹوٹنے کا تاثر پہلے پیدا اور پھر ختم کرکے وہ سلیکٹڈ کے دماغ کی چولیں بھی ہلا رہی ہے جبکہ اپنے اصل حریف کو بھی پی ڈی ایم کی طرف سے باور یہ کرایا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی بات مان کر نرمی اختیار کی جارہی ہے ورنہ فی الحقیقت یہ سب منصوبے کے عین مطابق آگے بڑھتا نظر آرہا ہے۔

اب اگر آصف علی زرداری سے کیا گیا غیر جانبداری کا وعدہ نبھایا گیا تو پنجاب اور وفاق دونوں میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے تبدیلی آجائے گی۔

جس کے اگلے مرحلے میں گرینڈ ڈائیلاگ شروع ہوجائے گا اور اگر ایسا نہ ہوا تو زرداری صاحب اور پیپلز پارٹی کے پاس یہ آپشن کھلا ہوگا کہ فون کال کرنے والے سے کہہ دیں کہ آپ نے وعدہ نہیں نبھایا لہٰذا اب آگے کے معاملات ایک بار پھر نواز شریف اور سخت لہجے والی پی ڈی ایم قیادت کے پاس جاچکے اور اب تو وہی ہوگا جس کا فیصلہ وہ کرے گی۔

امید یہی رکھنی چاہئے کہ دھوکہ نہیں ہوگا کیونکہ معاملات بہت نازک مقام تک پہنچ چکے ہیں۔ فروری کے وسط تک پنجاب اور وفاق دونوں جگہ تحریک عدم اعتماد عمران خان کا گھونسلہ تنکوں کی صورت بکھیر دے گی۔ اگر ایسا ہی ہوا تو عمران خان کے پاس مظلومیت والا کارڈ بھی نہ ہوگا کیونکہ وہ جمہوری عمل کے نتیجے میں راندہ درگاہ کئے گئے وزیر اعظم ہوں گے۔

عمران خان کے پاس اس سے بچنے کی ایک صورت تو یہ ہے کہ وہ مستعفی ہوجائیں۔ مگر اس صورت میں پی ٹی آئی اپنا نیا وزیر اعظم نہیں لا سکتی۔ کیونکہ اس کا “انتظام” کرنے والے خود کو غیر جانبدار رکھنے کا دعویٰ کررہے ہیں۔

دوسرا آپشن خان صاحب کے پاس اسمبلی توڑنے کا ہے لیکن مسئلہ اس میں یہ ہے کہ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو پی ڈی ایم دھمال ڈالے گی اور ملک میں جشن کا سماں ہوگا۔

Related Posts