پاکستان کی معاشی سمت، حقائق کیا ہیں؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 پاکستان تحریک انصاف نے جب اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی تو بہت پانچ وعدے تواتر کیساتھ کئے گئے جن میں سب سے پہلا وعدہ ملک میں غربت کا خاتمہ تھا ۔اس مقصد کیلئے وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بارہا مواقع پر چین کی مثال دیتے ہوئے اسی رول ماڈل کو اپنانے کا عندیہ دیا اور پاکستان میں غربت ختم کرنے کا دعویٰ کیا۔

وزیراعظم عمران خان کادوسرا وعدہ تعلیم عام کرنے کاتھا ،وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ڈھائی کروڑ بچہ اسکولوں سے باہر ہے ، ان بچوں کو اسکول میں لانا اور بہتر تعلیم فراہم کرنا وزیراعظم عمران خان کا مشن اوراہم ہدف تھا۔

وزیراعظم عمران خان کا تیسرا وعدہ انصاف کی فراہمی کے حوالے سے تھا، وزیراعظم عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ غریب اور امیر کو یکساں انصاف فراہم کیا جائیگا اور انصاف کی فراہمی عوام کی دہلیز تک پہنچانے کا عزم کیا تھا۔وزیراعظم عمران خان نے ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ کرتے ہوئے ملک کی معیشت کو اسی ڈگر پر ڈالنے کا پیغام دیا تھا جس سے نوجوانوں کیلئے ایک کروڑ نوکریوں کے مواقع پیدا ہونگے۔وزیراعظم عمران خان کا پانچواں وعدہ 50 لاکھ گھروں کی فراہمی تھا، انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ہم لوگوں کو 50 لاکھ گھر بناکر دینگے۔

یہ وہ پانچ بڑے اہداف تھے جو وزیراعظم عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کے دیگر رہنماؤں کی تقاریر کا حصہ تھے ، یہ اہداف مختلف تقریبات میں دہرائے جاتے رہے لیکن ان اہداف کو حاصل کرنے کیلئے مربوط منصوبہ بندی کی ضرورت تھی۔سال 2018ء میں کئے گئے وعدوں اور دعوؤں کا جائزہ لیا جائے تو حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ملک میں افراط زر میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے ، ملک میں مزید 50 لاکھ لوگ بیروزگار ہوگئے ہیں اور غربت کی شرح میں تقریباً 4 فیصد اضافہ ہوا ہے اور تقریباً پونے 3 کروڑ کے قریب بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔

حکومت کے منصوبوں کا جائزہ لیا جائے تو 50 لاکھ گھروں کے منصوبے پر تاحال کوئی خاطر خواہ پیشرفت سامنے نہیں آئی اور موجودہ صورتحال کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس رفتار سے اس دور حکومت میں چند لاکھ گھر بنانا بھی مشکل ہوگا۔اداروں کی اصلاحات کا بل بھی تاحال مکمل نہیں ہوسکا، یہاں اہم بات تو یہ ہے کہ ابھی بل تیار نہیں ہوسکا تو اصلاحات کب ہونگی یہ اپنی جگہ ایک اہم سوال ہے۔

موجودہ حکومت کے اہم کارناموں پر نظر ڈالیں تو صرف کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہونا ہے، آج کی تاریخ میں جاری حسابات کا توازن سرپلس ہوچکا ہے جس کا کریڈیٹ موجودہ حکومت کو نہ دینا زیادتی ہے لیکن صرف کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس کو متوازن کرنا پاکستان کی معیشت درست سمت میں ہونے کا ثبوت نہیں ہوسکتا جب تک ہم پیداوار، برآمدات، روزگار اور اشیاء خوردونوش کی قیمتوں کودرست سمت میں نہیں لیکر جاتے تب تک کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوگا۔

بدقسمتی سےحکومتی زعماء حقائق دیکھنے، سننے اور سمجھنے کو تیار نہیں ہیں ، حکومت ذمہ داران صرف کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہونے کو ہی معاشی کامیابی گردانتے ہیں اور حکومت کی کارکردگی بناکر پیش کرتے ہیں۔

ملکی معاشی کارکردگی کو دیکھیں تو یہ ادراک ہوگا کہ پاکستان کی طویل مدتی معاشی سمت درست نہیں ہے، اہداف کا تعین کرنے کے بعد ان کو حاصل کرنے کیلئے منصوبہ بندی بھی کی جاتی ہے اور یہ منصوبہ بندی ہمیں اہداف تک پہنچنے میں مدد دیتی ہے لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت کی حکمت عملی کا دارومدار ایڈہاک ازم پر ہے جس میں مستقل مزاجی یاقطعیت دکھائی نہیں دیتی۔

کبھی ہم ایک بات کرتے ہیں تو کبھی کوئی موقف اختیار کرلیتے ہیں، وزیراعظم عمران خان نے اپنے دور حکومت کے آغاز میں چھوٹے کاروبار جس میں مرغی، انڈے، بھینس اور دیگر چھوٹے کاموں کو فروغ دینے کا عزم کیا لیکن تاحال چھوٹے کاروبار کی حوصلہ افزائی اور فروغ کیلئے کوئی اہم اقدامات نہیں کئے جاسکے۔

اسی طرح حکومت نے ہدف تو صنعتوں کو ترقی دینے کا رکھا ہے لیکن صنعتی پالیسی کو واضح نہیں ہے، ہدف زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا ہے لیکن کوئی بہتر زرعی پالیسی نہیں ہے، ہدف سی فوڈ کی برآمدات کو ایک بلین ڈالر تک لیجانے کا ہے لیکن ابھی تک کوئی پالیسی نہیں بنائی جاسکی۔

حکومت اپنی معاشی ترجیحات کو درست کرے اور پالیسی سازی کرکے عملدرآمد بھی شروع کیا جائے کیونکہ جب پالیسی بن جائیگی تو ہی ہم اپنے اہداف کی طرف پیشرفت کرسکتے ہیںاور اگر ہم اپنے اہداف کو مکمل طور پر حاصل نہ بھی کرپائیں تو کسی حد تک تو کامیاب ہوسکتے ہیں جس کو عوام بھی سراہیں گے کہ کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔

اگر آ پ50 لاکھ گھروں میں سے 20 لاکھ بھی بنالیں اور ایک کروڑ نوکریوں میں سے 50 لاکھ نوکریاں اور پونے تین کروڑ بچوں میں سے ایک کروڑ بچوں کو بھی اسکول میں لیجائیں اور مہنگائی کو کسی حد تک ہی کم کردیں تو عوام ضرور سراہیں گے لیکن اگر محض باتیں ، دعوے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم کرنے کو ہی کامیابی گردانتے رہے تو شائد عوام کی مایوسیوں میں مزید کئی گنا اضافہ ہوجائیگا اور ملک مزید معاشی بحران کا شکار بھی ہوسکتاہے۔

Related Posts