پاکستان اور اسلام

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا، برصغیر میں مسلمانوں کی حالت زار اور ہندوؤں سے الگ طرز زندگی نے دوقومی نظریہ کو تقویت دی ہے اور قائد اعظم محمد علی جناح کی فہم وفراست کی بدولت پاکستان 14 اگست  1947ء کو دنیا کے نقشے پر ایک آزاد اسلامی ریاست بن کر ابھرا۔

اسلامی ریاست کے قیام کی خواہش،اسلامی معاشرے کا قیام، اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا تحفظ، اسلامی جمہوری نظام کا نفاذ، دو قومی نظریہ کا تحفظ، اردو زبان کا تحفظ و ترقی،مسلم تہذیب و ثقافت کی ترقی،مسلمانوں کی آزادی،مسلمانوں کی معاشی بہتری،مسلمانوں کی سیاسی و معاشی ترقی، ہندوؤں کے تعصب سے نجات، کانگریس سے نجات، رام راج سے نجات، انگریزوں سے نجات،تاریخی ضرورت،پر امن فضا کا قیام، اسلام کا قلعہ، ملی و قومی اتحاداوراتحاد عالم اسلام قیام پاکستان کیلئے جدوجہد میں تحریک پاکستان کے بنیادی نکات تھے۔

قائد اعظم محمد علی جناح نے 23 مارچ 1940ء کو قرار داد لاہور میں یہ بات واضح کردی تھی کہ اسلام اور ہندو مت محض مذاہب ہی نہیں  بلکہ دو مختلف معاشرتی نظام ہیں۔ ہندو اور مسلمان آپس میں شادی کر سکتے ہیں نہ ایک دستر خوان پر کھانا کھا سکتے ہيں اور متحدہ قومیت قابل عمل نہیں ہے۔

پاکستان بننے کے بعد یہاں بسنے والی ہر قوم اور مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو تمام بنیادی حقوق حاصل ہیں، پاکستان میں  مسیحی، ہندو، سکھ، پارسی اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو تمام اپنی رسومات کی ادائیگی کی مکمل آزادی حاصل ہے اور ہر مذہب کو ناصرف آزادی بلکہ تمام سہولیات بھی مہیا کی جاتی ہیں اور خطے کے دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کو ہر طرح کی مذہبی آزادی حاصل ہے۔

پاکستان میں آنیوالی ہر حکومت اقلیتوں کیلئے اقدامات اٹھاتی ہے اور ہونا بھی چاہیے لیکن موجودہ حکومت نے دیگر اقلیتوں کے مقابلے میں محض ایک قوم کی جانب زیادہ رجحان رکھا ہے اور یہ کوئی اور نہیں بلکہ وہ قوم ہے جس سے علیحدگی کیلئے ہم نے الگ ملک قائم کیا۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے جذبہ خیر سگالی اور سیاحت کے فروغ کے علاوہ اپنے ازلی دشمن بھارت سے محبت کی پینگیں  بڑھاتے ہوئے گزشتہ سال کرتار پور راہداری کا افتتاح کیا ۔

کرتار پور راہداری کے اقدام سے دنیا بھر میں پاکستان کا مثبت تشخص تو اجاگر ہوا لیکن بھارت کے ساتھ تعلقات میں جمی برف پگھل نہیں سکی اور بھارتی حکومت کی جانب سے پاکستان کی طرف سے بڑھنے والا دوستی کا ہاتھ ہر بار جھٹک دیا گیا۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں  پاکستان اور مسلمان دشمنی مزید عیاں ہوتی جارہی ہے لیکن حکومت پاکستان ان تمام تر چیزوں کو صرف نظر کرتے ہوئے بھارت کی خوشنودی کیلئے ہر روز ایک قدم آگے ہی بڑھتی جارہی ہے۔

حکومت پاکستان نے اسلام آباد میں مندر بنانے کی اجازت دینے کے ساتھ ملک میں ایک نئے تنازعہ کو جنم دیدیا ہے، اسلام آباد جہاں محض چند سو ہندو مقیم ہیں  وہاں پہلے سے ایک مندر کی موجودگی میں ایک اور مندر کا قیام اور اس کی تعمیر کیلئے کروڑوں روپے کے فنڈز کے اجراء کی اطلاعات نے عوام میں ایک بے چینی بھردی ہے۔

شہر اقتدار میں مندر بنانے کے حوالے سے ملک بھر کے جید علماء کرام اور سیاسی و سماجی حلقوں کی جانب سے بھی شدید ردعمل دیکھنے میں آیا ہے جبکہ مندر کی تعمیر روکنے کے حوالے سے درخواست دائر کرنے کے بعد عدالت نے متعلقہ اداروں سے جواب طلب کیا ہے۔

علماء دین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں  تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی کا حق ہے لیکن حکومت کی جانب سے مندر کی تعمیر کیلئے زمین اور فنڈز دینا شرعی طور پر جائز نہیں ہے، علماء اور عوام کی جانب سے تحفظات کے بعد پی ٹی آئی حکومت نئی مشکلات سے دوچار ہوگئی ہے۔

پاکستان میں بلاشبہ تمام مذاہب کو اپنی مذہبی رسومات وعبادات کی مکمل اجازت ہے لیکن پاکستان میں مسلمانوں سمیت ہر مذہب کو اپنی عبادتگاہوں کیلئے خود فنڈز پیدا کرنا ہوتے ہیں۔

تحریک انصاف کی حکومت ملک میں موجود تمام مذاہب کے حقوق کے تحفظ  کیلئے کوشاں دکھائی دیتی ہے تاہم حکومت پاکستان کسی مسجد، امام بارگاہ، گرجا، مندر یا گرودوارے کیلئے زمین یا رقم دینے کی مجاز نہیں ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے کہ ہر مذہب کے پیروکار اپنی عبادت گاہ کیلئے زمین خریدنے اور تعمیرات کیلئے خود فنڈز کا بندوبست کرتے ہیں لیکن موجودہ حکومت کی جانب سے بھارت کی خوشنودی کیلئے ہندوؤں اور سکھوں پر خصوصی عنایات قابل تشویش ہیں۔

نوٹ: ادارے کا قلمکار کے خیالات اور پیش کردہ مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

Related Posts