ہماری معاشی مخدوشیت اور چینی معاونت کی توقعات

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان اپنے جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے چین اور امریکا کیلئے جیو اسٹرٹیجک اعتبار سے اہم ترین ملک بن چکا ہے۔

چین کے ساتھ پاکستان کی توقعات اکثر پوری ہوئی ہیں جبکہ امریکا بہت حد تک غیر جانبدارانہ رہنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ امریکی خارجہ پالیسی کا مرکزی نقطہ اس وقت چین کے اثر و رسوخ کو روکنا ہے جو اس کیلئے نہ صرف اقتصادی خطرہ بن چکا ہے بلکہ امریکاکی بطور سپر پاور حیثیت میں بھی بتدریج کمی کے خدشات ہیں۔ ابھی ڈیڑھ سال پہلے امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا کے مابین ایک دفاعی معاہدہ ہوا ہے جس سے آبی گزرگاہیں اور چین اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔

دراصل پانی کی ان گزرگاہوں سے چین کا تمام تر سامان ، خدمات اور خصوصاً تیل گزرتا ہے تو امریکا چاہتا ہے کہ آبی گزرگاہوں اور دیگر راستوں پر اپنی اجارہ داری قائم کی جائے اور تمام ترآمدورفت کو اپنی مرضی سے جب اور جس طرح چاہیں کنٹرول کرلیا جائے۔ چین کا دفاعی بجٹ امریکا کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ امریکا نے 700ارب ڈالر دفاعی بجٹ رکھا ہوا ہے۔ چین کا بجٹ 100 ارب ڈالرز سے بھی کم ہے تاہم چین اور روس کی بڑھتی ہوئی پینگیں امریکا کیلئے پریشانی کا باعث ہیں۔

روس تو پہلے ہی امریکا، نیٹو اور مغربی ممالک کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے جسے نہ تو نگلا جاسکتا ہے، نہ اُگلا جا سکتا ہے اور اب چین اور روس مل کر امریکا کا مقابلہ کرنے میں جت گئے ہیں۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ کسی بھی ملک کے معاشی مفادات یا بالادستی کے تحفظ کیلئے ہمیشہ فوجی بالادستی کی ضرورت پیش آتی ہے تاکہ امریکا جو یہاں تھانیدار بننا چاہتا ہے، وہ وقت پڑنے پر ڈنڈا بھی لہرانے کی صلاحیت رکھتا ہو یا اگر یہ طاقت چین یا روس حاصل کرنا چاہیں، تو انہیں بھی عسکری طاقت کی بالادستی کو بڑھاوا دیتے ہوئے ظاہر کرنا ہوگا۔

یہاں پریشانی کا باعث صرف ایک معاملہ ہے وہ یہ کہ چین روس کے تعاون سے امریکی فوجی طاقت کے کم و بیش متوازی آنے والا ہے، خاص طو ر پر اگر خلاء کی عسکری طاقت کا موازنہ کی اجائے۔ تو ایک بار اگر ایسا ہوگیا تو ایک طرف اقتصادی طور پر اور پھر چین کو پہلے نمبر پر آنے سے روکنا مشکل ہوجائے گا اور امریکا، ظاہر ہے کہ دنیا بھر میں بطور سپر پاور اپنی سبقت برقرار نہیں رکھ سکے گا۔ چین 2013ء سے تجارتی لحاظ سے دنیا کا طاقتور ترین ملک ہے۔ چین کا معاشی حجم 17اعشاریہ 6ٹریلین ڈالر یقیناً امریکا کیلئے پریشانی کی بات ہے۔ چین تمام تجارتی شعبوں میں آگے بڑھ رہا ہے جو اس وقت نمبر ون ملک بن کر ابھرے گا۔ چین اور روس مل کر دنیا کا اہم ترین اتحاد تشکیل دیتے نظر آرہے ہیں۔

یہی دونوں ممالک زمین سے اوپر بھی امریکا کیلئے پریشانی کا باعث بن رہے ہیں۔ چین اور روس نے مل کر امریکا کے خلاف خلاء میں بھی برتری اپنے نام کرتے نظر آرہے ہیں۔ مستقبل میں کسی بھی فوجی تسلط معاشی مفادات کےمقابلے میں زیادہ تر اس بات کے گرد گھومتا نظر آئے گا کہ خلا میں کس کی طاقت زیادہ ہے جبکہ پاکستان اپنے جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے اس وقت مشکل میں ہے۔ جلد یا بدیر پاکستان کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ اس کا پلڑا کس طرف ہے۔ ہمیں یہ واضح کرنا ہوگا کہ چین ہمارا اسٹرٹیجک شراکت دار ہے جبکہ امریکا کے ساتھ ہمارے تعلقات میں ہچکولے آتے رہے ہیں۔

پاکستان کے چین کے ساتھ برادرانہ تعلقات ہیں اور چین اپنے بی آر آئی منصوبے کے تحت پاکستان اور دنیا کے دیگر علاقوں میں اپنی انٹرا اکنامک دلچسپی میں اضافہ کر رہا ہے اور یہ 4ٹریلین ڈالر کے منصوبے ہیں جس میں سے دنیا بھر میں 1 ٹریلین اس منصوبے پر خرچ ہوچکا جبکہ باقی 3 ٹریلین خرچ ہونا باقی ہے۔ گوادر امریکا اور بھارت کی نظر میں کھٹک رہا ہے جبکہ بھارت خطے میں امریکا کا پٹھو بنتا جارہا ہے۔ بھارت پراکسی جنگ میں کم و بیش 800 ملین کے قریب خرچ کرتا رہا ہے۔ پاکستان معاشی کمزوری کا شکار ہے جو پوری قوم کیلئے ناقابلِ برداشت بن چکی ہے جس کا اثر اکثریت پر پڑ رہا ہے۔

راقم الحروف کا ذاتی تجزیہ یہ ہے کہ چین کو اپنے مفادات کے تناظر میں بھی پاکستان کا بوجھ اٹھانا پڑے گا۔ اگر آئی ایم ایف پاکستان کو قرض دینے سے انکار کرتا ہے جس کے اشارے واضح طور پر ملنے شروع ہو گئے ہیں کیونکہ آئی ایم ایف میں زیادہ تر ڈائریکٹرز امریکا سے تعلق رکھتے ہیں تو یہ واضح ہے کہ امریکا آئی ایم ایف کی فیصلہ سازی پر کس حد تک اثر انداز ہوسکتا ہے۔ امریکا طویل عرصے سے اسی پالیسی پر عمل پیرا رہا ہے۔ امریکا کے عسکری مینؤل میں بھی کہا گیا ہے کہ خارجہ پالیسی اہداف کیلئے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے اداروں کا بہترین استعمال کیاجاسکتا ہے۔

ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ چین ہمارا دوست ملک ہے لیکن بین الاقوامی تعلقات میں کوئی بھی ملک آپ کا دوست یا دشمن نہیں ہوتا، بلکہ یہ آپس کے مفادات ہوتے ہیں جن کی بنیاد پر ممالک الگ الگ فیصلے کرتے ہیں اور ایک بلاک سے دوسرے میں چلے جاتے ہیں۔ لہٰذا پاکستان میں چین کی دلچسپی فی الحال سی پیک کی وجہ سے بامِ عروج پر ہے۔ دیگر معاشی معاملات بھی سامنے آرہے ہیں مثلاً پاکستان سے شیل کمپنی اپنا بوریا بستر لپیٹ رہی ہے جبکہ روسی تیل کی آمد شروع ہو گئی ہے۔ تیل کا پہلا جہاز پاکستان پہنچ چکا ہے۔ آذر بائیجان پاکستان کو ایل این جی دینے کا وعدہ کرچکا ہے۔

اگرہم ان تمام عوامل کو یکجا کریں تو چین دوستی کے علاوہ اپنے مفاد کی خاطر بھی پاکستان کے ساتھ اپنے تعاون میں اضافہ کرنے پر مجبور ہے۔ چین کے ساتھ ہمارے اسٹرٹیجک تعلقات بھی بہت اچھے ہیں، تاہم چین اپنے مفادات کا بھی تحفظ کرنا چاہتا ہے جس کا اسے پورا حق ہے۔ راقم الحروف یہ نہیں کہنا چاہتا کہ چین کے پاس ہماری مدد کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا، تاہم چین یقیناً پسند کرے گا کہ مشکل وقت میں پاکستان کے کام آیا جائے تاکہ چین اپنے معاشی اور جیو اسٹرٹیجک مفاد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکے۔

Related Posts