حکومت کا عدم تعاون الیکٹرک گاڑیوں کے فروغ میں بڑی رکاوٹ ہے،محمد صابر شیخ کی خصوصی گفتگو

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Non-cooperation of government is a major obstacle in automobile sector: Muhammad Sabir Sheikh

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

آج پوری دنیا ماحولیاتی آلودگی کے مسائل کی وجہ سے شدید مشکلات سے دو چار ہے اور دنیا بھر کے قائدین دنیا کو ماحولیاتی آلودگی سے بچانے کیلئے سرجوڑ کر بیٹھے ہیں جبکہ پوری دنیا ماحول کے تحفظ کیلئے ایسے آلات کی طرف جارہی ہے جن سے روز مرہ ضروریات پوری ہونے کے ساتھ ماحول پر بھی منفی اثرات مرتب نہ ہوں۔

ایسے میں الیکٹرک گاڑیاں اور موٹرسائیکلز بھی مارکیٹ میں آچکی ہیں جو پیٹرول اور ڈیزل کی نسبت ماحول دوست ایندھن کی وجہ سے تیزی سے مقبولیت حاصل کررہی ہیں۔

پاکستان میں بھی الیکٹرک موٹرسائیکل متعارف کرائی جاچکی ہے ۔ ایم ایم نیوز نے پاکستان الیکٹرک وہیکلز مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے چیئرمین محمد صابر شیخ سے ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا جس کا احوال پیش خدمت ہے۔

ایم ایم نیوز :پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کی حوصلہ شکنی کی وجہ کیا ہے ؟

محمد صابر شیخ : پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کی حوصلہ شکنی کی وجہ حکومتی سطح پر پالیسی کا فقدان ہے، دنیا کے دیگر ممالک میں الیکٹرک وہیکلز کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ بھارت الیکٹرک وہیکلز کے معاملے میں ہم سے پیچھے تھا لیکن وہاں حکومت نے الیکٹرک گاڑیوں کو ٹیکس چھوٹ دیکر ملک میں الیکٹرک گاڑیوں کی مارکیٹ کو بہت اوپر پہنچادیا ۔ پاکستان میں بھی ٹیکس چھوٹ دیکر مارکیٹ کو اٹھانے کی کوشش کی گئی لیکن یہاں چونکہ نظام موجود تھا اس لئے ہم الیکٹرک گاڑیوں کی مارکیٹ کومستحکم نہیں کرسکے۔

ایم ایم نیوز :کیا پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری بھی ہوتی ہے یا تیار گاڑیاں منگوائی جاتی ہیں؟

محمد صابر شیخ : الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری کا پاکستان میں ابھی کوئی نظام موجود نہیں ہے اس لئے ہم تیار گاڑیاں منگواتے ہیں کیونکہ جب تک حکومت ہمیں 100یا 200 اسمبل یونٹس ٹیسٹنگ کیلئے کم ڈیوٹی پرمنگوانے کی اجازت نہیں دیگی ہم ملک میں الیکٹرک گاڑیوں کو پروموٹ نہیں کرسکیں گے۔

ایم ایم نیوز :الیکٹرک موٹرسائیکل چلانے والوں کا رجحان کتنا ہے ؟

محمد صابر شیخ : دنیا میں اب تک الیکٹرک موٹرسائیکل چلانے والوں میں سب سے زیادہ تعداد خواتین کی ہے۔چین،تھائی لینڈ، بھارت،ملائیشیا اور دیگر ممالک میں لڑکیاں الیکٹرک موٹرسائیکل چلارہی ہیں۔الیکٹرک موٹرسائیکل کے مقابلے میں اسکوٹی کی فروخت زیادہ ہے۔

پاکستان میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ اگر ایک لڑکی موٹرسائیکل چلا رہی ہوتی ہے تو پوری ٹریفک متاثر ہوتی ہے کیونکہ ہر شخص رک رک کر اس لڑکی کو دیکھ رہا ہوتا ہے کہ یہ لڑکی کیا کررہی ہے۔

ایم ایم نیوز :پاکستان میں خواتین کو موٹرسائیکل کی فروخت کی تعداد کتنی ہے ؟

محمد صابر شیخ : پاکستان میں خواتین موٹرسائیکل چلاتو رہی ہیں لیکن یہاں ماحول کی وجہ سے لڑکیوں کے موٹرسائیکل چلانے کی تعداد دیگر ممالک کے مقابلے میں انتہائی کم ہے، اگر ہم سال میں ڈھائی لاکھ موٹرسائیکل فروخت کرتے ہیں تو ان میں 250بھی خواتین نہیں لیتیں۔

ہمیں اپنی خواتین کیلئے ایسا ماحول بنانا ہوگا جس میں لڑکیاں بھی آزادانہ طور پر سڑک پر موٹرسائیکل چلاسکیں اور اپنے روزگار اور دیگر امور کیلئے کسی کی محتاج نہ رہیں۔

ایم ایم نیوز :الیکٹرک گاڑیوں کی فروخت بڑھانے کیلئے کیا کرنے کی ضرورت ہے ؟

محمد صابر شیخ : پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں پر ٹیکس کم کرکے ہمیں سستی سواری فراہم کرنا ہوگی، اگر آپ خود اسمبلنگ کرنا چاہتے ہیں تو آپ سرٹیفکیٹ جاری کردیں تاکہ ہم خود الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری شروع کردیں۔پاکستان میں 6 سال قبل 130 اسمبلنگ یونٹس تھے جن میں سے ابھی صرف 30 فعال ہیں اور 100فیکٹریاں بند پڑی ہیں۔ حکومت مینوفیکچررز کو سہولیات دے اورٹیکس میں کمی کی جائے تو ملک میں الیکٹرک گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

ایم ایم نیوز :پاکستان میں 70 سی سی موٹرسائیکل کیوں تیار نہیں کی جاتیں ؟

محمد صابر شیخ : پاکستان میں الیکٹرک موٹرسائیکل بنانے والی ہر کمپنی 70 سی سی موٹرسائیکل تیار کررہی ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں دیگر ماڈلز کی موٹرسائیکل تیار کرنے کیلئے ہمارے پاس پارٹس ہی موجود نہیں ہیں۔

پاکستان میں 70 سی سی کے علاوہ کوئی موٹرسائیکل بنانے کی ٹیکنالوجی نہیں ہے اور 70 سی سی موٹرسائیکل کا خام مال بھی ہم باہر سے منگواتے ہیں۔

ایم ایم نیوز :الیکٹرک اور انجن وہیکل میں سے کونسی گاڑی بنانا آسان ہے ؟

محمد صابر شیخ : انجن وہیکل کے مقابلے میں الیکٹرک وہیکل بنانا بہت آسان ہے، پچھلے 50 سال سے ہم انجن نہیں بنا پائے لیکن الیکٹرک گاڑی میں انجن ہی نہیں ہے ،لیکن ہم لیتھیم سیل امپورٹ کرکے ملک میں الیکٹرک گاڑیاں تیار کرسکتے ہیں۔

ایم ایم نیوز :پاکستان میں نئی ٹیکنالوجی کو اپنانے میں ہمیشہ تاخیر کیوں ہوتی ہے ؟

محمد صابر شیخ : پاکستان میں جب کوئی بھی نئی ٹیکنالوجی لانے کی بات ہو تو حکومتی سطح پر اس طرح تعاون نہیں ملتا جو درکار ہوتا ہے اور یہاں وزراء کی تبدیلی بھی مشکلات کا سبب بنتی ہے جبکہ بڑی کمپنیوں کی اجارہ داری کی وجہ سے پاکستان میں ایس ایم ایز کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے کیونکہ الیکٹرک گاڑیاں چھوٹے ادارے ہی بناتے ہیں ابھی تک کوئی بڑی کمپنی الیکٹرک وہیکل بنانے کیلئے سامنے نہیں آئی۔

ایم ایم نیوز :کیاالیکٹرک گاڑیوں میں چینی ٹیکنالوجی پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے ؟

محمد صابر شیخ : آج پوری دنیا میں چینی مصنوعات استعمال کی جارہی ہیں۔امریکا چینی اشیاء سے بھرا پڑا ہے، یورپ چینی مصنوعات استعمال کررہا ہے۔ پوری دنیا کو الیکٹرک گاڑیاں چین سپلائی کررہا ہے، صرف ٹیسلا کو چھوڑ کر باقی تمام گاڑیاں چین بنارہا ہے اور الیکٹرک گاڑیاں چین کی ہی ایجاد ہے۔

ایم ایم نیوز : آنیوالے وقت میں الیکٹرک گاڑیوں کا کیا مستقبل ہوگا؟

محمد صابر شیخ :دنیا میں چیزیں تبدیل ہورہی ہیں، ماضی میں پیٹرول و ڈیزل پر چلنے والی گاڑیاں ایک وقت میں گیس پر منتقل ہوئیں اور اب الیکٹرک گاڑیوں کا دور آرہا ہے۔

ہماری اطلاعات کے مطابق افغانستان میں لیتھیم کے بڑے ذخائر موجود ہیں اور چین لیتھیم بیٹریز بنانے والا بڑا ملک ہے تو ہوسکتا ہے افغانستان کی لیتھیم آنے والے وقت میں دنیا کی الیکٹرک گاڑیوں کیلئے استعمال ہو اور چین میں لیتھیم موجود ہے اور اسی لئے چین اپنے اس ذخیرے کو استعمال کرتے ہوئے لیتھیم کا بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔

ایم ایم نیوز :پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کیلئے بڑی رکاوٹ کیا ہے؟

محمد صابر شیخ : پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کیلئے بڑی رکاوٹ سنجیدگی کا فقدان ہے، وزیراعظم عمران خان 3 سال پہلے الیکٹرک گاڑیوں کی منظوری دینے کیلئے احکامات جاری کرچکے ہیں اور وزراء بھی اس پر کام کررہے ہیں لیکن کام کی رفتار بہت سست ہے یہی وجہ ہے کہ 3 سال گزرنے کے باوجود اب تک نتائج سامنے نہیں آسکے۔ حکومت کے عدم تعاون کی وجہ سے ہم ابھی تک الیکٹرک گاڑیوں کے فروغ میں بہت پیچھے ہیں۔

Related Posts