روس یوکرین جنگ میں نیا موڑ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

گزشتہ ماہ 30 ستمبر کے روز روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے روس کے ساتھ یوکرین کے 4 علاقوں کے دوبارہ الحاق کا اعلان کیا جبکہ دونوں ممالک کے مابین فوجی آپریشن کے نام پر جنگ رواں برس فروری کے آخر سے اب تک جاری ہے۔

امریکا اور مغربی ممالک نے روس کے ساتھ لوہانسک، ڈونیٹسک، زایوریزہیا اور کھیرسن نامی 4 علاقوں کے الحاق پر غم و غصے کا اظہار کیا ہے جبکہ یہ خطہ یوکرین کے 15 فیصد حصے پر مشتمل ہے۔ روسی حکومت نے ایک ریفرنڈم کے بعد چاروں علاقوں کو دوبارہ روس کا حصہ بنا لیا جو ٹی وی پر براہِ راست نشر کیا گیا۔

کئی ہفتے قبل میں نے انہی سطور میں تحریر کیا کہ یوکرین کی تقسیم کا خدشہ ہے۔ روس کی جانب جھکاؤ رکھنے والے کچھ حصے روس کے ساتھ جا ملیں گے جبکہ دیگر حصے نیٹو بلاک کا حصہ بن جائیں گے۔ امریکا اور مغربی ممالک زمین کے صرف اسی حصے میں دلچسپی رکھتے ہیں جہاں ان کی عسکری طاقت روس کی گردن پر بیٹھ سکے۔

دراصل امریکا اور مغربی ممالک چاہتے ہیں کہ روس کی مسلسل مضبوطی کی جانب گامزن معیشت اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے وسیع پیمانے پر پھیلتے ہوئے جیو پولیٹیکل اور جیو اکنامک کثیر جہتی تعلقات کو کنٹرول کیا جاسکے تاہم پہلا گول روس نے کردیا اور یوکرین کے 4 علاقوں کا کنٹرول سنبھال لیا۔

امریکا اور نیٹو ممالک سمیت مغرب روس کے اس اقدام پر چیختا نظر آتا ہے۔ تمام اتحادیوں نے اقدام کو غیر قانونی اور ریفرنڈم کو جعلی قرار دیا اور یہ عہد بھی کیا کہ علاقوں کو واگزار کرائیں گے جبکہ روسی حکومت دوبارہ اتحاد کے ذریعے اپنے ملک میں شامل علاقوں کے دفاع کیلئے تیار ہے اور اس نے یوکرین کے دیگر حصوں بلکہ پورے ملک کو ہی مغرب کے قبضے سے آزاد کرانے کا دعویٰ بھی کردیا۔

محسوس ایسا ہوتا ہے کہ یہ بڑھتا ہوا تنازعہ پوری دنیا بالخصوص متعلقہ خطے کیلئے سنگین حد تک تشویشناک ہے۔ تنازعات کو ہوا دینا علاقائی و عالمی امن و خوشحالی کیلئے ایک مستقل خطرہ ہے۔

یوکرینی علاقوں کے روس سے الحاق پر مغربی و امریکی میڈیا کے شوروغل کو نظر انداز کیا جائے تو روس کے ایوانِ زیریں نے پیر کے روز متفقہ طور پر صدر ولادی میر پیوٹن کے بلز کی منظوری دی ہے۔ پارلیمنٹ اسپیکر کے مطابق ضم کیے گئے علاقوں پر قبضے کی باضابطہ منظوری دی گئی جو شکوک سے بالاتر ہے۔

روسی ایوانِ بالا (فیڈریشن کونسل) نے 4 اکتوبر کو الحاق کو قانونی شکل دینے کیلئے ووٹ دیا جس کو مغرب کے دعوے کے مطابق عالمی قانون کی خلاف ورزی قرار دیا جارہا ہے جبکہ یہ اقدام یوکرین اور اس کے حامیوں کو اشارہ دیتا ہے کہ روس الحاق کے عمل کو ناقابلِ تردید سمجھتا ہے۔

ایک دہائی قبل اختیار کی گئی جغرافیائی سیاسی حکمتِ عملی یوکرین میں امریکا اور نیٹو ممالک کی بڑھتی ہوئی دلچسپی اور اثر و رسوخ کے نتائج کی عکاس ہے۔ عالمی رہنما بخوبی جانتے تھے کہ اس سے ملک، خطے اور عالمی سطح پر بھی امن و خوشحالی متاثر ہوگی اور اب یہ سب کچھ ہوتا دیکھ رہے ہیں۔

کیف کے متعلق بھی کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ یوکرین کی تباہی تاحال جاری ہے۔ اریکا اور نیٹو پورے یوکرین پر قبضے کیلئے روس کے خلاف یوکرینی حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں۔ پولینڈ کا دعویٰ 5 علاقوں کا جبکہ رومانیہ کا 1 کا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ خصوصی آپریشن کے ذریعے یوکرین کی ریاست کو بچایا جارہا ہے جبکہ یہ امید نہیں کہ یوکرین کے موجودہ رہنما اسے بچانے میں کامیاب ہوسکیں گے۔ یہ کوئی اتفاق نہیں ہوسکتا کہ ایک ایسے شخص کو صدر کی کرسی پر بٹھایا گیا جو یورپ کے وسط میں 4 کروڑ افراد پر حکمرانی کی مہارت نہیں رکھتا۔

تمام تر صورتحال کے متعلق ایک روسی ماہرِ سفارت کاری کا کہنا ہے کہ ہمیں یہ نہیں بھولنا کہ روس، یوکرین اور بیلا روس تاریخی سلاؤ ریاستیں ہیں جو ایک دوسرے کے تعاون کے بل پر قائم رہ سکتی ہیں جو مغرب کیلئے کوئی راز کی بات نہیں ہے۔ پہلے انہوں نے بیلا روس کے حالات خراب کرنے کی ناکام کوشش کی پھر روس اور یوکرین کا تنازعہ کھڑا ہوگیا۔

ماہرِ سفارتکاری کا مزیر کہنا ہے کہ روس کے علاوہ کسی کو بھی یوکرینی ریاست کی تقدیر کی فکر نہیں۔ ہم اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اگر یوکرین ڈوب گیا تو ہمارے لیے یہ ایک غیر فطری چیز ہوگی۔ ہم کہہ سکتے ہیں روس آج ایک سنجیدہ اسٹرٹیجک مسئلہ حل کرنے میں مصروف ہے۔

تاریخی و نظریاتی اعتبار سے تجزیہ کیا جائے تو 18ویں صدی کے اواخر میں ترقی کے دوران میں روسی سلطنت نے کچھ ریاستوں پر غلبہ حاصل کیا۔ 1922 میں ان علاقوں کو سوویت حکام نے یوکرین سووویت سوشلسٹ جمہوریہ میں شامل کیا جو آبادیاتی اثر تھا۔ چاروں خطوں کو ضم کرنے کے باعث روس 50 سے 60 لاکھ نئے شہری حاصل کرسکے گا۔ملکی آبادی بڑھ جائے گی اور یہ تمام لوگ روس میں سماجی و ثقافتی معاشرے کا حصہ بن جائیں گے۔

Related Posts