نئے مالی سال کا بجٹ اور میدانِ سیاست کی نئی شطرنج

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

نئے مالی سال 24-2023ء کے بجٹ کو دیکھا جائے تو اس کے اعدادوشمار زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے۔ یعنی 9.2ٹریلین کی ٹیکس کلیکشن کس طرح ہوگی؟ جبکہ  طے شدہ ہدف  گزشتہ برس  بھی حاصل نہیں  کیا جاسکا، رواں برس بھی   جبکہ معیشت مزید بدحالی کی جانب گامزن ہے ، اتنی ٹیکس کلیکشن کے آثار نظر نہیں آتے۔  ابتدا میں ہی جو 12 ہزار ارب کا جو کلیکشن دکھایا گیا ہے، اس میں 11 ہزار ارب تو وفاقی حکومت کے اپنے اخراجات ہیں۔

یہ بجٹ بڑے خوبصورت الفاظ میں پیش کیاگیا۔ ظاہراً مسلم لیگ (ن)  یہ دکھانے کی کوشش کر رہی ہے کہ اس نے اتنی بڑی سیاسی قربانی دی اور پی ٹی آئی کی تباہ کردہ معیشت کو اپنے سر لیا، اب بجٹ کے نام پر کچھ نہ کچھ تو کارنامے ضرور وہ اپنے نام کرنا چاہیں گے، تاکہ عوام کی ہمدردیاں حاصل کی جاسکیں۔

جب تمام اراکینِ پارلیمنٹ کے سامنے بجٹ بکس رکھی ہوئی تھیں، تو راقم الحروف یہ سوچ رہا تھا کہ یہ ان کو ایک رات پہلے ملی ہے اور 7 خوبصورت جلدیں ان کے سامنے پڑی ہیں، کس نے بجٹ کی ان 7 ضخیم جلدوں کو کتنا دیکھا ہوگا؟ وہ اس بات سے  پتہ چل گیا کہ پورے ہال میں خاموشی تھی۔ کسی بھی قسم کی تنقید، بحث و تمحیص یا تبصرے دیکھنے میں نہیں آئے جو عموماً بجٹ پیش کرنے کے موقعے پر ہونا ایک قدرتی امر ہے۔ ظاہر ہے کہ 7جلدوں پر محیط بجٹ کی کتابیں پڑھنا کوئی آسان کام نہیں ہوسکتا۔ بقول شاعر:

الفاظ کے مرہم سے شفا دینے چلے ہیں

ان تازہ مسیحاؤں کا انداز تو دیکھو

کچھ اور الجھ جائیں گے دیرینہ مسائل

تقریر کا سلجھا ہوا انداز تو دیکھا

ملکی معیشت انتہائی بد حالی کا شکار ہے۔ مہنگائی 48فیصد جبکہ خوردنی اشیاء کا  افراطِ زر 50فیصد سے زائد ہوچکا ہے۔ ہمارے  ہاں  برآمدی اشیاء جو کہ صنعتوں کے کام آتی ہیں، ان  پر قدغن کے باعث برآمدی صنعتوں کی پیداواری صلاحیت پر منفی اثرات مرتب ہوئے ، جس کے سبب مزدور وں کو بے روزگار کیا گیا ۔ معاشی شرحِ نمو 0.29 ہوگی جس میں اضافے کی بجائے ترقی کا پہیہ منفی سمت میں گھومتا نظر آسکتا ہے۔

پاکستان کے بیرونی قرضے 131ارب ڈالر  کے قریب ہیں جبکہ اندرونی قرضے روپے کی صورت میں  اس سے بھی کہیں زیادہ ہیں۔ قرض جی ڈی پی تناسب 90 فیصد سے بڑھ گیا، جو قرض حدودو قیود ایکٹ کے مطابق60 فیصد سے  زیادہ نہیں بڑھایا جاسکتا۔ ہم اس کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ حکومت بجٹ پر عملدرآمد کیسے کرے گی؟ حکومت کو آئی ایم ایف سے قرض ملنے کی پہلے ہی امید نہیں تھی، اگر اب ہوگئی ہے تو کہا نہیں جاسکتا۔

 آئی ایم ایف سے ریلیف نہ ملنے کے باعث پاکستان معاشی بدحالی کا بحران بھگت رہا ہے۔ اسحاق ڈار بار بار کہتے ہیں کہ ملک کو ڈیفالٹ کی طرف لے جانے کی پیشگوئیاں کرنے والوں کو شرم آنی چاہئے، چلئے، تجزیہ  نگا ر اگر  یہ  نہ کہیں  کہ ملک ڈیفالٹ کر گیا  لیکن وہ  تمام تر اعدادوشمار اور حقائق سامنے رکھتے ہوئے یہ  سوال تو کرسکتے ہیں  کہ اگر آئی ایم ایف سے ریلیف نہ ملا تو حکومت کے پاس ایسا کیا طریقہ ہے کہ ملک ڈیفالٹ سے بچ جائے؟

رواں برس پاکستان نے قرض ادائیگیوں کیلئے 25 ملین ڈالر دینے ہیں، حکومت اس کے بارے میں بتائے کہ یہ پیسہ کہاں سے آئے گا؟ حکومت واضح کردے کہ ادائیگیاں کہاں سے ہوں گی، عوام خوش ہوجائیں گے۔

وفاقی حکومت کے پاس 43 ڈویژنز ، 400 منسلک محکمہ جات اور 65 ہزار سرکاری ملازمین ہیں۔ اگر حکومت 18 ویں ترمیم کے بعد  ان اخراجات کا کوئی بہتر انتظام کرتی توکئی ارب روپے کی بچت ہوسکتی تھی، لیکن حکومت نے کہیں سے کاسٹ کٹنگ کی بھی زحمت گوارا نہیں کی، جبکہ آئی ایم ایف  بھی کہہ رہا ہے کہ اپنے اخراجات تو کم کریں، لیکن حکومت نے اس پر توجہ نہیں دی اور کیونکر دیتی؟ کیونکہ اس بجٹ کو بھگتنے والی حکومت تو شاید کوئی اور ہوسکتی ہے۔  

موجودہ دورِ حکومت میں ملکی تاریخ کی سب سے زیادہ  مہنگائی ہوئی ، جس نے عمران خان دور کو بھی مات دے دی ہے۔ بجٹ دینے کا سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ حکومت کو آئندہ ہونے والے الیکشن میں بد ترین مہنگائی کے باعث عوام کے غم و غصے کا شکار نہ ہونا پڑے اور لوگ بجٹ میں دی گئی رعایات کو دیکھتے ہوئے پی ڈی ایم کے رہنماؤں کو جوق در جوق ووٹ دے کر اسمبلیوں میں لے آئیں۔

کیا حکومت الیکشن بر وقت کروائے گی؟ اس پر بڑے  ملے جلے اشارے حکومت اور آصف زرداری دونوں کی جانب سے مل رہے ہیں۔ سابق صدر آصف زرداری نے کہا کہ جب وہ چاہیں گے، الیکشن ہوجائے گا، لیکن انہوں نے یہ نہیں کہا کہ الیکشن بہت جلد ہوجائیں گے اور کب ہوجائیں گے؟  سابق صدر کی خواہش ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کسی طرح وزیر اعظم بن جائیں اور ان کی جس طرح ٹریننگ ہورہی ہے، تو وہ اگر آگے جا کر بن بھی جائیں تو اس میں کوئی ہرج نہیں۔ ن لیگ بھی اپنا وزیر اعظم لانے کی تدبیریں کر رہی ہے۔ نواز شریف بھی  مریم نواز کو وزیر اعظم بنانے کی خواہش رکھتے ہیں اور اس میں بھی کوئی ہرج نہیں کیونکہ ہمارے ملک میں موروثی سیاست ہی رواج بن چکی ہے۔

موجودہ پی ڈی ایم حکومت کے تحت مسلم لیگ (ن) کا کافی سیاسی سرمایہ لگ چکا ہے۔ جہاں تک جہانگیر ترین کی استحکامِ پاکستان پارٹی کا تعلق ہے تو اس میں ایسے سیاسی رہنما تو موجود ہیں جو الیکشن جیت کر اسمبلیوں میں جا سکیں، جن کو الیکٹیبل کہا جاتا ہے، لیکن سیاسی کارکنان تاحال جہانگیر ترین کا ساتھ دیتے دکھائی نہیں دے رہے اور نہ ہی اس کی کوئی زیادہ امید کی جاسکتی ہے۔  

جہانگیر ترین پی ٹی آئی کا دور آنے سے قبل عمران خان کو وزیر اعظم بنانے کیلئے جس طرح لوگوں کو جہاز بھر بھرکر لا رہے تھے، وہ بھی عوام کے علم میں ہے۔ ان جہازوں میں اور بھی کافی چیزیں ہوتی تھیں جن سے لوگوں کو نوازا جاتا تھا۔ یہ وہی لوگ تھے جن کو پی ٹی آئی میں بھرتی کیا گیا اور اب ان کو آئی پی پی (استحکامِ پاکستان پارٹی) میں واپس لایا جارہا ہے۔

یہ اڑتے پنچھی ہیں اور سب کہہ رہے ہیں کہ ووٹ ان کے پاس ہیں۔ یہ الیکشن کے وقت پتہ چلے گا کہ اصل میں عوام کسے ووٹ دے کر منتخب کریں گے۔ اس سے قبل وفاقی حکومت بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی کے مصداق جتنے ووٹ قابو کر سکتی ہے ، وہ کرنے کی تگ و دو میں مصروف  رہے گی۔ ایسے میں اگر یہ کہا جائے کہ وفاقی حکومت کا پیش کردہ بجٹ الفاظ کے خوبصورت گورکھ دھندے سے بڑھ کر کوئی حیثیت نہیں رکھتا، تو بے جا نہ ہوگا۔

Related Posts