آزادئ اظہارِ رائے کا بہانہ ۔۔۔ مسلم اُمّہ نشانہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

یورپی یونین سمیت دیگر عالمی پلیٹ فارمز کی جانب سے سویڈن میں قرآنِ پاک نذرِ آتش کیے جانے کے افسوسناک واقعے کی بھرپور مذمت کی جارہی ہے۔

واقعے کے متعلق 5 جولائی کو کمیشن آف دی پشپس کانفرنسز آف دی یورپی یونین کا  اپنے پیغام میں کہنا تھا کہ ہم مسلم ممالک کے ساتھ برادرانہ حمایت کا اظہار کرتے ہیں۔ پیغام میں یورپی کونسل آف مسلم لیڈرز کا ایک بیان بھی منسلک کیا گیا جس پر اس کے صدر امام یحییٰ پلاویسینی نے دستخط کیے تھے۔

اس ضمن میں جاری کردہ یورپی یونین کے بیان میں کہا گیا کہ یہ عمل کسی بھی طرح یورپی یونین کی رائے کی عکاسی نہیں کرتا۔ قرآنِ پاک یا کسی اور مقدس کتاب کو نذرِ آتش کرنا توہین آمیز اور اشتعال انگیزی کا صریح فعل ہے۔ نسل پرستی، زینو فوبیا اور عدم برداشت کے مظاہر کی یورپ میں کوئی جگہ نہیں اور یہ مزید افسوسناک ہے کہ عیدالاضحیٰ کی اہم تقریب کے دوران اس طرح کی حرکت کی گئی۔ یورپی یونین مذہب اور عقائد کی آزادی کیلئے پر عزم ہے۔ وقت آگیا ہے کہ باہمی افہام و تفہیم کیلئے ایک ساتھ کھڑے ہوا جائے اور مزید تنازعات روک دئیے جائیں۔

دنیا بھر میں سویڈن سمیت دیگر مغربی ممالک میں قرآنِ پاک نذرِ آتش کرنے سمیت قرآن کی بے حرمتی  کے دیگر واقعات امتِ مسلمہ کیلئے لمحۂ فکریہ بنتے جار ہے ہیں جبکہ آزادئ اظہارِ رائے کوئی ایسا معمہ نہیں جسے سمجھا نہ جاسکے اور جس کے پیچھے قرآن جیسی مقدس ترین کتاب کی توہین کی جسارت کی جاسکے۔

عالمی سطح پر مذہبی آزادی اور مذہبی شعائر اور کتب کی بے حرمتی کے خلاف واضح قوانین موجود ہیں جن کی پاسداری سے ایسے واقعات سے بچا جاسکتا ہے، جیسا کہ عیدالاضحیٰ  کے موقعے پر سویڈن میں ہوا ۔

امریکا میں مذہبی امتیاز ایکٹ 1998ء اور عالمی میثاق  اور پھر عالمی اعلامیے کا آرٹیکل 7 وسیع معنوں میں مذہبی امتیاز کے خلاف ہے تاہم سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ امتِ مسلمہ ایسے واقعات کے خلاف مل جل کر آواز کیوں نہیں اٹھاتی؟ جبکہ رواں برس عالمِ اسلام کی جانب سے ماضی کی بہ نسبت کسی قدر بہتر ردِ عمل دیکھنے میں آیا ہے۔

خاص طور پر اقوامِ متحدہ ، سویڈن اور دیگر ممالک نے بھی اس واقعے کی مذمت کی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ او آئی سی ممبران کی جانب سے بھی مذمت کی گئی، تاہم سویڈن اور مغربی ممالک نے وسیع تر الفاظ میں عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی، جو نہیں ہونی چاہئے تھی جبکہ او آئی سی وہ سب سے بڑا پلیٹ فارم ہے جو مسلمانوں کے جذبات و مفادات کا تحفظ کرسکتا ہے۔

اگر او آئی سی آرٹیکل 9 کے تحت کوئی قرارداد منظور کرے جو ہنگامی یا غیر معمولی نوعیت کی ہوگی، تاہم اس ضمن میں اوآئی سی چارٹر کے آرٹیکل 9 کے نفاذ کا مطالبہ کیاجاسکتا تھا اور کونسل آف فارن  منسٹرز کو بھی  آرٹیکل 10 کے تحت متحرک کیا جاسکتا ہے۔

او آئی سی کی جانب سے صرف بیان ہی جاری کیا گیا،  اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ جبکہ ہمیں اس ضمن میں عالمی سطح پر کمزوریوں کی نشاندہی بھی کرنا ہوگی کیونکہ سویڈن میں جو کچھ ہوا وہ مختلف عالمی قوانین اور عالمی فریم ورک سے متصادم ہے۔ اس نقطہ نظر سے ہمارے پاس بہت کچھ ہے۔ ہمیں ایک طویل مدتی منصوبہ تشکیل دے کر اسلاموفوبیا کے خلاف آواز اٹھانا ہوگی تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات رونما نہ ہوں۔

یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس کا آرٹیکل 7 اس ضمن میں معاون ثابت ہوسکتا ہے جس میں عدم برداشت کا ذکر ہے کہ یہ نہیں ہونی چاہئے۔ انٹرنیشنل کووینیٹ آف سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس سمیت دیگر عالمی قوانین بھی مذہبی عدم برداشت کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ ضروری ہے کہ ہم اپنے مذہبی جذبات کا تحفظ یقینی بناتے ہوئے ایسا لائحہ عمل تشکیل دیں کہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کرسکیں۔

ماضی میں سویڈن کے اسی شہر میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے اسی طرح توہین آمیز واقعے کا مرتکب ہوا تاہم اسے او آئی سی اور رکن مسلم ممالک نے فراموش کردیا اور وہ شخص آج بھی آزاد گھوم رہا ہے  اور اپنی مہم کو جاری رکھے ہوئے ہے کیونکہ اسے   کوئی سزا نہیں دی جاسکی، جبکہ اس ضمن میں بھی سخت ایکشن لیے جانے کی اشد ضرورت تھی، جو نہیں لیا گیا۔ یوں سویڈن میں ایک اور واقعہ ہونے کی راہ ہموار ہوئی کیونکہ اگر مؤثر طریقے سے ایکشن لیا جاتا تو کسی کو جرأت نہیں ہوسکتی تھی کہ دوبارہ ایسی ہی توہین آمیز اور گستاخانہ حرکت کا مرتکب ہوتا۔

پاکستان سمیت دیگر ممالک میں سویڈن میں ہونے والے توہین آمیز واقعے کے خلاف عوامی احتجاج قابلِ ستائش اس لیے ہے کیونکہ یہ پبلک ڈپلومیسی کے ذریعے اپنے احساسات کو پھیلانے کا ایک حصہ ہے۔

عالمِ اسلام کے ساتھ ساتھ اقوامِ عالم کو بھی سمجھنا ہوگا کہ تمام مسلم ممالک میں موجود کروڑوں مسلمان توہین آمیز واقعات کے شدید خلاف ہیں اور اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کیلئے گھر بار اور دفاتر چھوڑ کر سڑکوں پر نکل آئے ہیں، تاکہ مستقبل میں کسی کو ایسے واقعات کی جرأت نہ ہو۔ جو قوم ایسے واقعات کے خلاف سڑکوں پر آسکتی ہے، وہ اپنے حکمرانوں کو مروّجہ بین الاقوامی قوانین کے تحت سخت ایکشن لینے پر مجبور بھی کرسکتی ہے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ عراق سے تعلق رکھنے والے تارکِ وطن ملعون شخص نے قرآنِ پاک نذرِ آتش کرنے کے ناقابلِ معافی اقدام سے قبل عدالت سے آرڈر حاصل کیا تھا تاہم عدالتی حکم نامے میں کہیں یہ نہیں لکھا ہوا تھا کہ عوامی جذبات بھڑکائے جائیں۔

جب او آئی سی کی جانب سے  ایک ہلکا پھلکا  اجلاس ہوا جس سے سویڈن کو یہ واضح ہوگیا کہ مسلم ممالک اس واقعے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور اس کو زیادہ شدت سے اٹھا سکتے ہیں  تو سویڈن حکومت نے بھی مذمتی بیان جاری کرتے ہوئےو اقعے سے لاتعلقی کا اعلان کردیا، تاہم محض ایسے بیانات سے ایسے واقعات کا سدِ باب ممکن نہیں ہے۔ یقیناً صرف او آئی سی کا ایک بیان اس معاملے میں ناکافی ہے۔

ایک جانب تو سویڈن نے یہ بیان جاری کیا کہ ہمارا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں جبکہ دوسری جانب ملعون شخص کو پولیس کی حفاظت فراہم کی جارہی تھی تاہم یہ بات خوش آئند ہے، جیسا کہ سویڈن کے وزیرِ انصاف گنر سٹرومر نے کہا کہ سویڈن حکومت قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے قرآن کریم  نذرِ آتش کرنے کے حالیہ واقعات کی روشنی میں قرآن پاک یا دیگر مقدس کتب جلانے کو جرم قرار دینے پر غور کر رہی ہے۔

ضروری ہے کہ ایسے واقعات کا ہمیشہ کیلئے سدباب کیا جائے۔ اگر سویڈن حکومت قرآن جلانے کو جرم قرار دے بھی دیتی ہے تو دیگر توہین آمیز واقعات کا تدارک کیسے ممکن ہوگا، مثلاً رسول اللہ ﷺ کے توہین آمیز خاکے شائع کرنا اور مساجد کے ساتھ ساتھ مسلمانوں پر توہین آمیز حملے، اس کے ساتھ ساتھ خواتین کے پردہ کرنے پر بھی بھارت اور بعض مغربی ممالک نے پابندی عائد کررکھی ہے۔

ایسے تمام تر واقعات کے ہمیشہ کیلئے سد باب کی غرض سے مسلم امہ کو سر جوڑ کر بیٹھنا اور عالمی سطح پر ایکشن لینا ہوگا۔ ایسی ہی صورت میں صورتحال میں کسی حد تک بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے۔

Related Posts