لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی واقعے پر گرفتار وکلا کی رہائی کے لیے دائر درخواستوں پر ریمارکس دئیے کہ واقعے میں جو لوگ ملوث ہیں ان کے لیے کوئی رعایت نہیں تاہم جو ملوث نہیں انہیں پریشان نہ کیا جائے۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس سردار احمد نعیم پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے پی آئی سی واقعے کے بعد گرفتار وکلا کی رہائی کی درخواستوں پر سماعت کی، اس دوران وکلا کی جانب سے احسن بھون پیش ہوئے جبکہ عدالت میں آئی جی پنجاب پولیس شعیب دستگیر بھی موجود تھے۔
سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل پنجاب بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے، اس موقع پر وکلا کے وکیل احسن بھون نے بتایا کہ لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے پی آئی سی واقعے کی مذمت کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وکلا کو منہ پر کالا کپڑا ڈال کر انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیا گیا جبکہ پولیس نے تھانوں میں وکلا پر تشدد کیا، اس کے علاوہ وکلا کے گھروں پر چھاپے مار کر انہیں گرفتار کیا جارہا ہے۔
علاوہ ازیں احسن بھون نے پی آئی سی واقعے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ وکلا ایک گھنٹے سے زائد وقت میں پیدل پی آئی سی گئے، پنجاب حکومت یا سکیورٹی اداروں نے انہیں کیوں نہ روکا، وکلا کو ریس کورس پارک سے گرفتار کرکے ڈاکٹرز کے حوالے کیا گیا جہاں انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
اس پر عدالت نے ریمارکس دئیے کہ جس نے یہ گناہ کیا ہے اسے سزا ملے گی لیکن جس نے نہیں کیا اسے سزا بھگتنے نہیں دیں گے۔گرفتار وکلا کے وکیل کی بات پر عدالت میں موجود آئی جی پنجاب نے بتایا کہ پولیس نے نہ کسی برادری کو ٹارگٹ کیا اور نہ ہی تشدد کیا ہے۔
اس پر عدالت نے کہا کہ وکلا کے چہرے ڈھانپ کر عدالت میں پیش کرنے کی کیا ضرورت تھی، ہم نے خود دیکھا ہے کہ وکلا کے چہرے کالے کپڑے سے ڈھانپے ہوئے تھے، کالا کپڑا ڈال کر منہ تب چھپاتے ہیں جب کسی کو پھانسی دینی ہو۔
اسپتال پر حملے سے متعلق عدالت عالیہ نے ریمارکس دئیے کہ ویانا کنونشن میں بھی ہے کہ جنگ میں اسپتالوں پر حملہ نہیں کرتے، تاہم عدالت نے کہا کہ سینئر وکلا نے معاملے کے بعد وہاں جاکر معافی مانگی تاہم سامنے سے کو بہتر ردعمل نہیں آیا۔
مزید پڑھیں: پی آئی سی میں جو کچھ ہوا وہاں جانے والوں نے سب کا منہ کالا کیا، لاہور ہائیکورٹ