لبرل جمہوریت کی آخری سانسیں

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

قوموں کے مابین ثقافتی، تعلیمی ، زرعی اور صنعتی وفود کا تبادلہ قدیم انسانی روایت ہے۔ اس کے ذریعے قومیں ہمیشہ سے ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کرتی آئی ہیں۔ پچھلے سو سال کے دوران اس باب میں ترقی پذیر اقوام کے ساتھ مغرب کا رویہ یہ چلا آیا ہے کہ وہ انہیں اپنے ثقافتی رنگ میں رنگنے پر تو ہمیشہ مصر رہا ہے مگر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے باب میں ترقی پذیر اقوام کیلئے اس نے ہمیشہ رکاوٹیں ہی کھڑی کی ہیں۔پھر ثقافتی ایشوز پر تو اس کا رویہ اسقدر جارحانہ رہا ہے کہ یہ بات وہ کسی ترقی پذیر قوم کی مرضی پر نہیں چھوڑتا کہ وہ کیا لے اور کیا نہ لے بلکہ دھونس دھمکی اور جبر کے ذریعے وہ اپنی تقلید مسلط کرتا ہے۔ اس باب میں وہ قوموں کے نصاب تعلیم تک میں دخل دینے سے باز نہیں آتا۔ تعلیم کے باب میں بھی اس کی شکایت یہ نہیں ہوتی کہ تمہارا نصاب تعلیم اچھے سائنسدان کیوں پیدا نہیں کر رہا ؟ بلکہ یہ ہوتی ہے کہ تمہارا نصاب مشرقیت یا کسی اور چیز کو فروغ کیوں دے رہا ہے ؟ چنانچہ وہ ہمارے ماہرین تعلیم سے لے کر ادیب تک سب کو خرید تا آیا ہے، اور انہیں اس ڈیوٹی پر مامور کرتا آیا ہے کہ اپنے ہاں کی نوجوان نسل کو اپنی ثقافت سے متنفر اور مغربی کلچر کا دلدادہ بنائے۔ انہیں سمجھائے کہ سائنس اس دماغ میں گھر نہیں کرتی جس دماغ کا گھر ایسا وجود ہو جو شلوار قمیض پہنتا ہو، جو ناچتا نہ ہو اور جو بات بات پر مذہب کے حوالے دیتا ہو۔ ترقی کا لولی پاپ صرف لبرل بن کر ہی چوسا جاسکتا ہے۔

اب اگر غور کیجئے تو ثقافتی، تعلیمی، زرعی اور صنعتی وفود کا تبادلہ شروع کس غرض سے ہوا تھا ؟ ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھ کر آگے بڑھنے کی غرض سے، ہے نا خوبصورت اور پرکشش مقصد ؟ لیکن جب اسی پر عمل کرکے چین ثقافت کے بجائے علمی میدان میں مغرب کے تجربات سے استفادہ کرکے آگے بڑھ آتا ہے تو امریکہ اس پر کیا ردعمل دیتا ہے ؟ ردعمل کچھ یوں آتا ہے”ہم اپنے اتحادیوں سے مل کر چین کا راستہ روکیں گے” کیوں بھئی ؟ کیا وہ واشنگٹن پر کوئی بم گرانے کا ارادہ رکھتا ہے ؟ کیا اس کے عزائم ہٹلر اور مسولینی جیسے ہیں ؟ کیا وہ امریکہ اور مغربی ممالک کی طرح دیگر اقوام کو عالمی قوانین کی مدد سے غلام رکھنے کا کوئی ایجنڈا رکھتا ہے ؟ نہیں ! ایسا کچھ بھی نہیں۔ وہ تو دوسری اقوام میں ثقافت کے نام پر بھی صرف اپنے کھانے متعارف کراتا ہے۔ کسی کے تعلیمی نصاب میں دخل دیتا ہے اور نہ شلوار قمیض میں۔ جب بھی بات کرتا ہے ،صنعت، زراعت، تجارت اور پارٹنر شپ کی کرتا ہے۔ پھر اس کا راستہ روکنے کے لئے آسٹریلیا، بھارت، جاپان اور کوریا وغیرہ کو ملا کر جنوبی چین کے سمندر میں جنگی ماحول کیوں پیدا کیا جا رہا ہے ؟ وہ غلطی کیا ہے جس کی سزا اسےدینا مقصود ہے ؟ وہ غلطی یہ ہے کہ وہ تعلیمی اور صنعتی وفود کے تبادلوں کی مدد سے ترقی کرنا صرف سیکھ ہی نہیں گیا بلکہ اسے ٹربو گیئر لگا کر ترقی یافتہ ممالک سے بھی زیادہ تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ صرف پچاس سال قبل اس کی حالت یہ تھی کہ وہ ہر میدان میں مدد کا طالب تھا۔ اور آج صورتحال یہ ہے کہ امریکہ جیسا عالمی لیڈر بھی اس کا ایک اعشاریہ سات ٹریلین ڈالرز کا مقروض ہے اور وہ جب چاہے اپنی کرنسی کی قیمت گرا کر ڈالر کو لقوہ کرا سکتا ہے۔

فرانسس فوکو یامانے سوویت یونین کی تحلیل کے موقع پر اپنے مقالے “اینڈ آف ہسٹری” میں دعویٰ کیا تھا کہ اب لبرل جمہوریت کو تمام انسانوں کا واحد نظام بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ہزاروں سال سے انسان کسی بہتر نظام کی تلاش میں جو سفر کرتا آیا ہے وہ تمام ہوگیا۔ اب مزید کسی تلاش کی ضرورت نہیں رہی۔ اب لبرل جمہوریت ہی دنیا کا واحد اور حتمی نظام ہوگا۔ اور اسی تصور کی بنیاد پر اکیسویں صدی کو امریکہ کی صدی قرار دے کر نیو ورلڈ آرڈر کی بات کہی گئی۔ لیکن اکیسویں صدی کے پہلے بیس سالوں کا منظرنامہ یہ ہے کہ ستائیس برس قبل جس روس کی حالت یہ تھی کہ سوویت یونین کی تحلیل کے نتیجے میں اس کے شہری زندہ رہنے کے لئے قطاروں میں لگ کر ڈبل روٹیاں حاصل کر رہے تھے وہ آج ایک بار پھر اپنے قدموں پر جم کرکھڑا ہوگیاہے۔ اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ امریکہ کو آنکھیں بھی دکھا رہا ہے۔

اکیسویں صدی کو امریکہ کی صدی قرار دے کر جارحانہ سفارتکاری و حربی آپریشنز کے ذریعے مشرق وسطی سے لے کر وسطی ایشیا تک “ان ہاؤس قبضے” کا جو پلان امریکہ آگے بڑھا رہا تھا اسے روس اور چین نے روک دیا ہے۔ روس ایک طرف نیٹو کے رکن ملک ترکی سے تعلقات مضبوط کرکے مشرق وسطی کے دروازے پر ایک اہم دوست بنانے کی کوشش کر رہا ہے بلکہ شام میں طویل مدتی عسکری قیام کے ذریعے امریکی پیش قدمی کا مستقل سد باب بھی کر رہا ہے۔ اور صرف شام ہی کیا وہ اپنی سرحدوں کے آس پاس بھی امریکی پلان کو خاک میں ملا چکا۔ جارجیا ، کرغستان اور یوکرین میں پپٹ حکومتیں لاکر امریکہ روس کو گھیر کر اندرونی بغاوت کی جس سکیم پر عمل پیرا تھا اسے یوکرین میں اپنی جارحانہ حکمت عملی سے روس ناکام بنا چکا۔ صرف یہی نہیں بلکہ 2011میں “جمہوری بغاوت” کے ذریعے روس کو “لبرل جمہوریہ” بنانے کی کوشش کرنے والی ہیلری کلنٹن کا امریکی صدر بننے کا خواب بھی ولادی میر پیوٹن چکنا چور کرچکا ہے۔ اور صورتحال کو اس نہج پر پہنچا چکا کہ جو امریکہ ساری دنیا کو جمہوریت کے لیکچرز دیا کرتا تھا وہ اب اپنے ہی گھر میں لبرل ڈیموکریسی کو خطرے سے دوچار دیکھ رہا ہے۔

ولادی میر پیوٹن کا دوست ڈونلڈ ٹرمپ امریکی سیاسی نظام میں ایک ایسے وائرس کے طور پر سرایت کرچکا ہے جس کا اینٹی وائرس کانگریس کے پاس ہے اور نہ ہی وائٹ ہاؤس کے پاس۔ قوموں کو قرضوں میں جکڑ کر ان کی ثقافت، تعلیم، اور شناخت چھیننے کی حکمت عملی رکھنے والے لبرل جمہوری نظام کو اپنی بقا کی جد و جہد کرنی پڑ رہی ہے اور وہ بھی اپنے سب سے مضبوط قلعے میں۔ مغرب کی نسل پرست تحریکیں اٹھی ہی لبرل جمہوریت کے خلاف ہیں۔ یہ نظام اگر انسانی مسائل کا کوئی حقیقی حل ہوتا تو اسے اپنے ہی گھر میں بغاوت کا سامنا کیوں ہوتا ؟ جو کام کمیونزم لبرل جمہوریت کے خلاف نہ کرسکا تھا وہ گھر کے اندر سے جنم لینے والا نیشنلزم کر رہا ہے۔ اور وہ ٹرمپ کو عدالت سے سزا دلوا کر بھی لبرل ڈیموکریسی کو نہیں بچا سکتے۔ ٹرمپ نہ ہوگا تو کوئی اور ہوگا۔ ایسے میں ہمارے لنڈا بازار میں عورت مارچ ایک بے وقت کی راگنی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ جس نظام کے نمائندے ہیں، وہ نظام اپنے گھر میں ہی تدفین کے مرحلے میں ہے۔ اس کا مقبرہ ان لاکھوں مظلوموں کی آہ کا حاصل ہوگا جنہیں پچھلے سو سال کے دوران امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے جنگیں مسلط کر کر کے دنیا بھر میں قتل کیا۔یہ اس نظام کی ناکامی نہیں تو کیا ہے کہ امریکی قوم کورونا جیسے سنگین چیلنج کے خلاف بھی متحد نہ ہوسکی اور کہلاتا ان کا ملک “یونائیٹڈ سٹیٹس” ہے۔

ان کا صدر کہہ رہا ہے، احتیاط کیجئے۔ اور ریاستیں کہہ رہی ہیں، کسی احتیاط کی ضرورت نہیں۔ صدر ماسک پہنے رکھنے کی تلقین کر رہا ہے۔ اور گورنر ماسک کو تار تار کر رہے ہیں۔ صدر سکول بند رکھنے کا کہہ رہا ہے اور گورنر سکول کھولنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اور یہ سب اس امریکہ میں ہورہا ہے جس کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ ہونے کے باوجود سب سے زیادہ شہری کورونا سے مرچکے۔ ساڑھے پانچ لاکھ اموات کوئی معمولی تعداد ہے ؟ جمہوریت کے اس سب سے بڑے ٹھیکیدار کیلئے یہ صورتحال کس قدر تباہ کن ہے اس کا اندازہ اسی سے لگا لیجئے کہ شرح اموات کے لحاظ سے دوسرے اور تیسرے نمبر والے برازیل اور بھارت کی اموات بالترتیب دو لاکھ پچھتر ہزار اور ڈیڑھ لاکھ اموات ہیں۔ حالانکہ ترقی کے نام نہاد پیمانوں پر تو یہ اعداد و شمار برعکس ہونے چاہئے تھے۔ برعکس ہی نہیں بلکہ امریکی اموات دنیا میں سب سے کم ہونی چاہئیں تھیں۔ اتنی بڑی ترقی اور اتنی کثیر اموات ؟ آخر کیوں ؟ کیونکہ ان کا وہ سسٹم فیل ہوچکا جس سسٹم سے متعلق فوکویاما نے 1989ء میں دعوی کیا تھا کہ آج کے بعد یہی انسانیت کا حتمی اور واحد نظام ہوگا۔ جمہوری نظام کا کوئی انکار نہیں۔ لیکن جمہوریت صرف وہی ہے جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ہاں ہے، یہ بات کیسے قبول کی جاسکتی ہے ؟ لبرل ڈیموکریسی پر اصرار پوری دنیا پر امریکی قبضے کی سکیم کے سوا کچھ نہ تھا۔ یہ سکیم ہی نہیں بلکہ لبرل ڈیموکریسی بھی آج آخری سانسیں لے رہی ہے !

Related Posts