” صحافت آزاد نہیں ہوسکتی”

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پی ڈی ایم تحریک کی گھما گھمی کے اس موسم میں سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے پاکستانی صحافت کے حوالے سے ایک چھوٹا سا غیر رسمی ریفرنڈم کرایا ہے۔ جسٹس فائز عیسی اور جسٹس مقبول باقر پر مشتمل بینچ کے سربراہ جسٹس فائز عیسی نے اٹارنی جنرل آف پاکستان سے کہا، ہاں یا ناں میں جواب دیجئے کہ کیا پاکستان میں آج کل صحافت آزاد ہے؟ اٹارنی جنرل نے دو کے بجائے تین آپشنز مانگیں تو جسٹس فائز عیسی نے کورٹ میں بیٹھے صحافیوں سے فرمایا، جنہیں لگتا ہے کہ صحافت آزاد ہے وہ ہاتھ کھڑے کریں۔

اس پر کسی ایک صحافی نے بھی ہاتھ کھڑا نہیں کیا۔ جسٹس فائز عیسی نے اگلا سوال پوچھتے ہوئے فرمایا، جنہیں لگتا ہے کہ صحافت آزاد نہیں ہے، وہ ہاتھ کھڑے کریں۔ اس پر کورٹ روم میں بیٹھے تمام صحافیوں نے ہاتھ کھڑے کر دئیے۔ اس واقعے کے نتیجے میں صحافتی حلقوں میں ایک بحث چھڑ گئی ہے۔ اس بحث میں کے دوران تائیدی و مخالف دونوں ہی حلقے یک طرفہ بات کر رہے ہیں۔

یہ درست ہے کہ موجودہ سسٹم کے خلاف بات نہیں کرنے دی جارہی۔ اور یہ بھی درست ہے کہ یہ ”موگیمبو” کے اشارے پر ہورہا ہے۔ مگر ہمارے میڈیا میں بات تو ملک ریاض اور اس کے بحریہ ٹاؤن ہی نہیں بلکہ موبائل کمپنیوں کے خلاف بھی کرنے کی اجازت نہیں۔ کیا سچ کا یہ گلا بھی موگیمبو گونٹتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی صحافت ان دنوں تین کیمپوں میں بٹی نظر آرہی ہے۔

ایک کیمپ ان صحافیوں کا ہے جو موجودہ حکومت اور اس کے لئے مینڈیٹ ”تخلیق” کرنے والوں کے حامی ہیں۔ اس کیمپ کو نہ صرف یہ کہ مکمل آزادی ہے بلکہ ان کے لئے موگیمبو کی جانب سے گراں قدر انعام و اکرام کی وہ روایت بھی زندہ ہے جو سلاطینی درباروں کا خاصا ہوا کرتی تھی۔ ہاں! ایک فرق یہ ضرور آیا ہے کہ پرانے وقتوں میں صرف اشرفیوں کی تھیلی ملا کرتی تھی۔ اب حکومتیں صدارتی تمغے اور نشان امتیاز وغیرہ بھی نچھاور کر دیتی ہیں۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے وجاہت مسعود کو نوازا تو موجودہ حکومت نے ارشد شریف کو۔

دوسرا کیمپ ان صحافیوں پر مشتمل ہے جو ”رحونیاتی حکومت” اور اس کے لئے کرامات کا انتظام کرنے والے ”پیر و مرشد” کے ناقد ہیں۔ ان کے لئے روز گار سے بے دخلی، لکھنے اور بولنے پر پابندیاں، اور شمالی علاقہ جات و فتح جنگ کی سیروں کا انتظام ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ اقدامات مظالم ہی ہیں، لیکن کسی بری سے بری چیز میں بھی خیر کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور ہوتا ہے۔ مثلا یہ ظلم جیسی بدتر چیز ہی ہے جو آزادی کا محرک بن جاتی ہے۔

آقا مظالم نہ کرتے تو انسان شاید غلامی کو ہی اپنا مقدر سمجھ بیٹھتا۔ سو موجودہ رجیم کے مظالم میں خیر کا ایک پہلو یہ نکل آیا ہے کہ ہمیں صحافت کے کچھ نامی گرامی تیس مار خانوں کی قوت برداشت معلوم ہوگئی ہے۔ ہرچند کہ قربان گاہ سے لوٹنے والے خود کو منصور حلاج کے ہی قبیلے کا آدمی باور کرنے لگے ہیں۔ مگر میرے اور آپ کے باور کرنے یا نہ کرنے سے کیا ہوتا ہے؟ جو بھی ہوتا ہے تاریخ کے سلوک سے ہوتا ہے۔ ہمیں انتظار کرنا چاہئے اس دن کا جب تاریخ محض بارہ بارہ گھنٹوں میں ہی قربان گاہ سے سر سلامت لانے والے منصوروں سے متعلق اپنا فیصلہ سنائے گی۔

ہماری صحافت کا تیسرا کیمپ ان صحافیوں پر مشتمل ہے۔ جو مذکورہ دونوں کیمپو کے بیچ اپنا ایک الگ کیمپ سجا کر بیٹھے ہیں۔ ان کا چلن یہ ہے کہ یہ اندر سے تو موگیمبو اور اس کے نظام کے مخالف ہی ہیں لیکن یہ قربانی دینے کو فضول کام سمجھتے ہیں، چاہے وہ قربانی بارہ گھنٹے کی ہی ہو۔ خود کو ”حاضر سروس” رکھنے کے لئے ان کی ترکیب یہ ہے کہ حکومت پر بھی تنقید کرو اور اپوزیشن کو بھی برا بھلا کہو۔ تین سال قبل یہ بڑے زور و شور کے ساتھ کہا کرتے تھے ”نواز شریف نام لے کر کیوں نہیں بتاتے کہ انہیں کس نے نکالا؟” اور ساتھ ہی حق الیقین کی حد تک پہنچا ہوا یہ دعوی بھی کردیا کرتے کہ نواز شریف کبھی بھی نام نہیں لے گا، اس میں اتنی جرات ہی نہیں۔

تین سال بعد نواز شریف نے درست ٹائمنگ کے ساتھ ایک نہیں دو دو بلکہ چار چار نام لے دیے تو انہی صحافیوں نے یہ کہنا شروع کردیا ”نام کیوں لیا؟ یہ تو نواز شریف بہت غلط کر رہا ہے” آپ نے ہاتھ کی صفائی دکھانے والوں کے تماشے تو بہت دیکھے ہوں گے۔ مگر قلم اور زبان کی ایسی ”ستھری صفائی” دکھانے والے جادو گر ہم پہلی بار دیکھ رہے ہیں۔اب حالیہ تحریک کے دوران ہی ان کا چلن دیکھ لیجئے۔ اس کیمپ کا بند کمروں میں دعوی یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی تحریک بہت زبردست جا رہی ہے۔ فوری استعفوں کے بجائے سینٹ الیکشن لڑنا دانائی ہے۔

لیکن جب یہ اخبار میں لکھتے یا ٹی وی پر بولتے ہیں تو موقف یہ ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم ناکام ہوگئی، یہ استعفے دینے کے بجائے سینٹ الیکشن لڑ رہی ہے۔ ساتھ ہی اگلی سانس میں یہ بھی کہہ دیتے ہیں ”اس کا مطلب یہ نہیں کہ حکومت کامیاب ہے، وہ بھی ناکام ہے” اس کیمپ میں ایسے معصوم لوگ بھی شامل ہیں جو موگیمبو کی ناراضگی پر راتوں رات کتاب کا ٹائٹل بھی بدل دیتے ہیں۔

دعویٰ اس کیمپ کا بھی یہی ہے کہ یہ حق گوئی کر رہے ہیں لیکن اس یاوہ گوئی کو حق گوئی کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے جس کا ایک حصہ سچ اور دوسرا جھوٹ پر مشتمل ہو؟ اور جھوٹ بھی صرف اس لئے کہ نوکری بحال رہے۔ اگر اس کیمپ کے اراکین کا کہا مانیں تو ان کے کیمپ کا نام ”سمجھدار کیمپ” پڑے لیکن ان کے اس چلن کا نتیجہ یہ ہے کہ انہیں موگیمبو اور اپوزیشن دونوں ہی شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ یوں ان کا موزوں نام ”گرے کیمپ” ہی بنتا ہے۔

برصغیر کی صحافت کے لیجنڈ ابوالکلام آزاد نے استعمار کو عدالتی کٹہریمیں کھڑے ہوکر کہا تھا ”میں سیاہ کو سفید کہنے سے انکار کرتا ہوں ” ہماری صحافت کا یہ گرے کیمپ سیاہ کو سیاہ تو کہتا ہے مگر مگر ساتھ ہی سفید کو بھی سیاہ بتا کر نوکری بچا جاتا ہے۔ سچ بس یہ ہے کہ ہر طرف مفادات کی جنگ ہے۔ کسی کو اپنا مفاد نواز شریف کو برا اور عمران خان کو اچھا کہنے میں نظر آتا ہے تو کسی کو اس کے برعکس۔ اور کسی کو اپنا مفاد گرے کیمپ میں دکھتا ہے۔

جب تک مفادات کا یہ کھیل ختم نہ ہوگا صحافت آزاد نہ ہوگی۔ اس کھیل کے ختم ہونے کی علامات یوں ظاہر ہوسکتی ہیں کہ ایک تو صحافی انفرادی حیثیت میں حکومتوں سے عہدے، پلاٹ، پرمٹ اور ٹھیکے لینا بند کردیں۔ اور دوسرا یہ کہ اجتماعی حیثیت میں سرکاری ہاؤسنگ سکیموں اور پریس کلبوں کے لئے کروڑوں روپے کی سرکاری امداد کی بھیک منگیاں ترک کردیں۔ حکومتوں سے مانگتے مانگتے ہمارے صحافی اتنا گر چکے ہیں کہ اب ملک ریاضوں سے مانگتے بھی نہیں شرماتے۔ جب تک یہ دھندے جاری ہیں صحافت آزاد نہیں ہوسکتی۔

Related Posts