غیر ذمہ داری سے بے حسی تک کا سفر

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

قوموں کی اجتماعی خوبیاں ان کی قسمت کا تعین کرتی ہیں، اگر کوئی قوم وقت کی قدر اور محنت پر ایمان رکھتی ہے تو یقیناً کامیابی اس کا مقدر بنتی ہے، کسی بھی چیز کو مطمع نظر بنانے والی قوم کوئی نہ کوئی نئی چیز دریافت کرنے کی جستجو میں مگن رہتی ہےاگر کسی قوم کا رجحان جدت اور ایجادات پر ہو تو وہ نت نئی چیز تخلیق کرتی ہے ۔

قوم کی اجتماعی کاوشیں ان کی تقدیر کا تعین کرتی ہیں، اگرہم جاپان کی مثال سامنے رکھیں تو جاپان میں وقت کی قدر ایک قومی خوبی ہے اور احساس ذمہ داری اور محنت جاپانی قوم کا خاصہ ہے اور ان تینوں  خوبیوں کی بدولت ایک چھوٹا سے ملک ہونے کے باوجودجاپان آج دنیا کے بڑے بڑے ممالک کو اپنی اشیاء اور خدمات فراہم کرتا ہے بلکہ کئی ممالک مکمل طور پر جاپان کے مرہون منت ہیں۔

پاکستان میں بھی بدقسمتی سے کئی اجتماعی خوبیاں موجود ہیں ، ہم لوگ اجتماعی طور پر لاپرواہ اور غیر ذمہ دار ہیں اور لاپرواہی سے شروع ہونیوالا یہ سفر غیر ذمہ داری کی منازل کو پیچھے چھوڑتا ہوا بے حسی کے مقام تک پہنچ چکا ہے۔انفرادی اور اجتماعی طور پر پاکستانی قوم انتہائی لاپرواہ اورغیر ذمہ دار واقع ہوئی ہے، اس کا اندازہ اعلیٰ  ایوان میں براجمان سیاستدانوں کے غیر ذمہ دارانہ بیانات سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔غیر ذمہ داری اور لاپرواہی کا رویہ ترک کئے بغیر ہم کسی صورت ایک اچھی قوم نہیں بن سکتے۔

گزشتہ دنوں ایک قریبی عزیز کے بیٹے کی ولادت کے موقع پر گجرات کے ایک سرکاری اسپتال جانے کا اتفاق ہوا،یہ اسپتال پاکستان کے قومی ہیرو نشان حیدر پانے والے میجر راجہ عزیز بھٹی کے نام سے منسوب ہے اور یہ ضلع کا سب سے بڑا اسپتال ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر علاقوں کے لوگوں کو بھی علاج کی سہولت فراہم کرتا ہے اور اس کے حوالے سے مشہور ہے کہ یہ 50 لاکھ لوگوں کی خدمت کرنیوالا سرکاری اسپتال ہے اور پنجاب کی سیاست میں بڑا اثر و رسوخ رکھنے والے چوہدری برادران اس اسپتال کے قریب قیام پذیر ہیں۔

اس اسپتال میں داخل ہوتے ہی مجھے یہ احساس ہوا کہ شائد کسی کھنڈر نما عمارت میں آگیا ہوں ، اس اسپتال کی خستہ حالت دیکھ کر یہ گمان ہوا کہ شائد یہ متروک عمارت ہے جس کو حکومت نے قومی ورثہ قرار دیکر بند کردیا ہو تاہم اندر داخل ہوکر میں  بناروک ٹوک زچہ وارڈ میں پہنچ گیااور راہ میں بابجا کوڑے کرکٹ کے ڈھیر لگے تھے ۔

عزیز کا بچہ آئی سی یو میں ہونے کی وجہ سے میں جب آئی سی یو پہنچا تو حیرت کی انتہا نہ رہی کہ آئی سی یو میں لوگ بنا روک ٹوک گھوم پھر رہے ہیں اور آئی سی یو میں کئی بچے موجود تھے جن میں کچھ کی حالت انتہائی تشویشناک تھی جبکہ آئی سی یو میں صرف دو نرسیں موجود تھیں جن میں سے ایک رجسٹر میں کچھ اندراج اور دوسری آلات دیکھ رہی تھی جبکہ بچوں کا کوئی پرسان حال نہیں تھا اورکچھ خواتین آئی سی یو میں ہی سو رہی تھیں۔

ڈاکٹر کے متعلق استفسار کرنے پر یہ عقدہ کھلاکہ یہاں کبھی کبھار ڈاکٹر آتے ہیں جبکہ باقی تمام وقت نرسیں  ہی بچوں کو دیکھتی ہیں۔عزیز کے بچے کو وینٹی لیٹر کی ضرورت تھی تو جب ہم نے وینٹی لیٹر کیلئے سوال کیا تو ہمیں یہ پتا چلا کہ یہاں کوئی وینٹی لیٹر موجود نہیں ہے،50 لاکھ آبادی کے اسپتال میں کوئی وینٹی لیٹر موجود نہ ہونا ایک حیرت انگیز بات تھی۔

بچے کو مصنوعی طریقے سے سانس دینے کے دوران ہمیں بچے کو دوسرے کسی اسپتال لیجانے کا مشورہ دیا گیا تو دیکھا کہ ایمبولینس میں بھی آکسیجن کی سہولت موجود نہیں جس کی وجہ سے بچے کی دوسرے اسپتال منتقلی بڑا رسک تھی اور اس شش و پنج میں  چند گھنٹوں کے بعد اس بچے کا انتقال ہوگیا۔

اس تمام تر صورتحال کو دیکھتے ہوئے میں یہ سوچنے پر مجبور تھا کہ ڈاکٹرز اور طبی عملے کی بے حسی کی وجہ سے اس اسپتال میں روزانہ نجانے کتنے ننھے پھول کھلنے سے پہلے ہی مرجھاجاتے ہونگے۔ہماری قسمت کا فیصلہ کرنے اور تبدیلی لانے والے اور اس اسپتال سے چند کلو میٹر دور قیام پذیر سیاسی رہنماؤں کو شائد پتا بھی نہیں ہوگا کہ یہاں کیا ہورہا ہے، پنجاب کے مرکز میں واقع اس اسپتال کودیکھتے ہوئے باقیوں کے حالات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔

اس کالم کا مقصد حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانا نہیں ہے بلکہ ڈاکٹرز کی بے حسی کا احاطہ کرنا ہے کیونکہ یہ ڈاکٹرز کی بے حسی تھی کہ کوئی جواب طلبی نہ ہونے کی وجہ سےوہ آئی سی یو میں نہیں آتے، شائد یہ عملے کی بے حسی ہے کہ اگر وہاں پر آلات اوروینٹی لیٹریا دیگر سہولیات نہیں تو انہوں نے تقاضہ بھی نہیں کیا۔اگر ہمارے معاشرے میں احساس ذمہ داری پیدا ہوجائے تو محدود وسائل میں کے باوجود مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

جب تک ہم خود ذمہ دار شہری یا ذمہ دار ملازم ، ڈاکٹریا انجینئر نہیں بنتے اور جب تک ہمارے اندر دوسروں کیلئے احساس پیدا نہیں ہوتا تب تک ہمیں حکومت یا اداروں سے کسی قسم کی توقع نہیں رکھ سکتے۔ سب سے پہلے ہمیں اپنی اجتماعی روش کو تبدیل کرنا ہوگااور ذمہ دار اور احساس مند شہری بننا ہوگا۔

احساس یہ نہیں ہے کہ آپ چند لوگوں کو کھانا دیکر سوشل میڈیا پر تصاویر ڈال دیں  یا سگنل پر فقراء کو بھیک دیکر فخر کریں بلکہ احساس ذمہ داری یہ ہے کہ آپ کسی بھی ادارے میں ہوں ، اس سے متعلقہ لوگوں کا احساس کریں اور دوسروں کا درد محسوس کریں تو شائد ہمارے بہت سے مسائل خودبخود ختم ہوسکتے ہیں۔

Related Posts