سیاسی میدان میں دینی مدارس کا حصہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

بیسویں صدی کے دوران دنیا کی تین بڑی سامراجی طاقتیں کمزور ممالک کے عوام کی نفرت کا نشانہ رہیں۔ یہ طاقتیں برطانیہ، سوویت یونین اور امریکہ تھیں۔ اگر ہم اپنے خطے کے تناظر میں دیکھیں تو عصری اداروں سے پڑھ کر نکلنے والے تو منقسم رہے لیکن دینی تعلیم کے اداروں کا تعلیمی پس منظر رکھنے والے اس حوالے سے یکسو رہے۔ مثلا ہمارے ہاں عصری درسگاہوں کے فیض یافتگان میں ایسے افراد کی بھی کمی نہ تھی جو برطانیہ کو ایک غاصب آقا کی نظر سے دیکھتے بھی تھے اور اس کے خلاف جد و جہد بھی کرتے تھے۔مگر ان کے ساتھ ساتھ ان کی موجودگی بھی بالکل عیاں تھی تو جو اسی غاصب قوت کے ملازم و نمک خوار تھے۔ پھر قیام پاکستان کے بعد کے دور میں دیکھا جائے ہند و پاک دونوں جگہ یہ واضح تقسیم موجود تھی کہ کچھ لوگ فکری طور پر امریکی کیمپ سے جڑے رہے تو کچھ سوویت کیمپ کے فداکار تھے۔ آگے چلکر جب سوویت یونین نہ رہا تو سوویت کیمپ کے فداکار نظریاتی کمیونسٹ ثابت ہوتے ہوئے کمیونزم کے نظریئے سے جڑے نہ رہے بلکہ مفادات کے حریص ثابت ہوتے ہوئے امریکی چھتری تلے چلے گئے۔اب وہ کمیونزم کی جگہ لبرلزم کا نمک حلال کرتے نظر آئے۔ ان کے لئے ان نظریات سے وابستگی بس ایک ”جاب” جیسا معاملہ تھا۔ ایک کمپنی ڈوب گئی تو دوسری کمپنی کو سی وی بھجوادیا۔ اور جاب میسر آتے ہی اسی نظریے کو عظمتِ انسانی کے لئے اکسیر ثابت کرنے میں جت گئے جس کی وہ سوویت کیمپ میں رہتے ہوئے پرزور مخالفت کرچکے تھے۔ ان کے برخلاف دینی مدارس کے خوشی چینوں کا یہ اعزاز کوئی نہیں چھین سکتا کہ وہ مذکورہ تینوں عالمی طاقتوں کے اجتماعی طور پر حریف رہے۔اس حوالے سے ان کے ہاں کبھی بھی کوئی تقسیم موجود نہیں رہی۔ اس سے ایک بات تو یہ ثابت ہوتی ہے کہ ان کی کمٹمنٹ غیر متزلزل ہے۔ اور دوسری یہ کہ نظریے کے باب میں یہ لوٹا گیری کا مزاج نہیں رکھتے۔ ان کے لئے نظریہ کوئی ملازمت نہیں کہ ایک کمپنی ڈوبی تو دوسری میں درخواست دیدی۔

یہ حقیقت کسی المیے سے کم نہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سیاسی کوچوں میں پورے مذہبی حلقے کو ہمیشہ سیاسی گلیاروں سے باہر دھکیلنے کی شعوری کوششیں ہوتی رہی ہیں۔اس باب میں اس حقیقت سے بھی بھی انکار ممکن نہیں کہ ایسا کرنے والے ملک کے فوجی حکمران نہیں بلکہ سول بالادستی کے پرچارک تھے۔ وہ ایسا کسی علمی اصول کی بنیاد پر کرتے تو اس پر سنجیدہ غور و فکر بھی ہوسکتا تھا مگر ان کا معاملہ تو از اول تا آخر تحقیر و تذلیل پر مبنی تھا۔ دینی مدارس سے نسبت رکھنے والوں کو جاہل، غیر تربیت یافتہ اور زکوۃ خور سمیت اردو لغت کا ہر وہ طعنہ دیا گیا جو اپنے دامن میں تحقیر کا کسی بھی درجے کا سامان رکھتا تھا۔ ان تمام طعنہ زنیوں کے باوجود یہ طبقہ سیاسی میدان سے جڑا رہا اور وقتا فوقتا منتخب ہوکر اقتدار میں بھی معمولی سا حصہ دار بنتا رہا۔ لیکن جب یہ جمہوری عمل کے نتیجے میں ایک منتخب نمائندے کی حیثیت سے اقتدار میں شریک ہوا تو دشنام بھی شدت اختیار کر گیا۔ اب یہ طعنہ آنے لگا کہ مولانا فضل الرحمن تو ہر حکومت کا حصہ ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ الیکشن لڑا کیوں جاتا ہے؟ وہ کونسی سیاسی جماعت ہے جس کا انتخابی منشور یہ ہو کہ ہمارا ہدف اپوزیشن بننا ہے، پلیز ہمیں ووٹ دے کر اپوزیشن بننے کا موقع دیجئے؟ ہر ایم این اے اپنے حلقے کے عوام سے ان کے مسائل حل کرنے کے ایجنڈے اور وعدے کے ساتھ ووٹ مانگتا ہے۔ اور یہ مسائل حکومت کا حصہ بننے سے حل ہوتے ہیں اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے سے نہیں۔ سو اگر جے یو آئی یا کوئی بھی دوسری مذہبی جماعت اقتدار میں شراکت اختیار کرکے اپنے حلقہ انتخاب کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتی ہے تو یہ کس جمہوری ضابطے کی خلاف ورزی ہے؟

نائن الیون سے قبل کے ماحول میں تو شاید اس بات کا ادراک نہیں کیا جاسکتا تھا کہ مولوی کو سیاسی میدان سے باہر رکھنا کس درجے کی مہلک غلطی ہوسکتی ہے۔ لیکن نائن الیون کے بعد کی صورتحال یہ حقیقت اچھی طرح واضح کرچکی ہے کہ مولوی کو سیاسی سرگرمی سے دور رکھنے کا نتیجہ کس ہولناک صورت میں ظاہر ہوسکتا ہے۔ نائن الیون کو بنیاد بنا کر امریکہ افغانستان پر چڑھ دوڑا تو جنگی حقیقتوں کے مطابق اس کی تمازت پاکستان تک بھی آگئی۔نتیجتاً یہاں دہشت گردی کا بازار گرم ہوگیا۔ اور چونکہ دہشت گردوں نے وضع قطع بھی مولویوں والی اختیار کر رکھی تھی اور یہ قرآنی آیات کے حوالے بھی دیتے تھے سو یہ خطرہ پیدا ہوگیا کہ کہیں مدارس کے بچے ان کے جال میں نہ پھنس جائیں۔ خدا کی رحمت ہو مرحوم علامہ شاہ احمد نورانی، قاضی حسین احمد اور مولانا فضل الرحمن سمیت ایم ایم اے کی پوری قیادت پر کہ تاریخ کے اس خطرناک ترین موڑ پر مذہبی فکر رکھنے والی نوجوان نسل کو انہوں نے مسلسل سیاسی میدان میں مصروف رکھا جس کے نتیجے میں یہ نسل دہشت گردی کی راہ اختیار کرنے سے بچ گئی۔ ذرا ایک لمحے کو غور کیجئے کہ اگر ایم ایم اے نہ ہوتی تو دینی مدارس کے 15 لاکھ بچوں کے لئے دہشت گردوں کے کیمپ واحد آپشن نہ ہوتے؟ اس پورے پس منظر میں جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ موجودہ حکومت نے گزشتہ دنوں باقاعدہ اعلان کیا کہ دینی مدارس کے طلبہ کو سیاسی جلسوں اور ریلیوں کا حصہ نہیں بننے دیں گے تو دل دہل جاتا ہے۔ کیا عمران خان اور شیخ رشید بتا سکتے ہیں کہ جب وہ دینی مدارس کے طلبہ پر ڈنڈے کی مدد سے سیاسی دروازے بند کریں گے تو ان کے پاس آپشن کیا بچے گی؟ کیا یہ حکومت ان 15 لاکھ بچوں کو دہشت گرد بنانے کی کوشش نہیں کر رہی؟اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ کس قانون کے تحت ان طلبہ پر یہ پابندی لگا رہی ہے کہ وہ سیاسی جدوجہد کا حصہ نہیں بن سکتے؟ صرف اس لئے کہ یہ بچے سیاسی نظریات میں یکسو ہیں، وہ فضل الرحمن کو چھوڑ کر پی ٹی آئی کے ڈانسنگ کلب کا حصہ نہیں بنتے؟ پر امن سیاسی سرگرمی ملک کے ہر شہری کا حق ہے۔ یہ حق چھیننے کا مطلب ہے کہ آپ نوجوان نسل کو تشدد اور انتہا پسندی کی راہ پر ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اس بات کا سب سے زیادہ نوٹس اسٹیبلیمشنٹ کو لینا چاہئے کیونکہ تشدد سے نمٹتے ہوئے جانیں انہیں قربان کرنی پڑتی ہیں۔ مسلم لیگ نون کی سابقہ حکومت کی مربوط اور زبردست حکمت عملی کے نتیجے میں آج ملک بمشکل امن کی جانب واپس آیا ہے تو حکومتِ وقت ہی اس امن کے لئے خطرہ ثابت ہونے جا رہی ہے۔ کیا وہ اس ضمن بھی یہ یہی سوچ رکھتے ہیں کہ یہ جو امن ہے یہ سابقہ حکومت نے ورثے میں دیا ہے لہٰذا یہ ہمیں عزیز نہیں؟

Related Posts