سندھ حکومت کا آئی جی پولیس پر عدم اعتماد انارکی کو جنم دیگا

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سندھ حکومت ایک مرتبہ پھر آئی جی پولیس کوعہدے سے ہٹانے کے لئے کوشاں ہے،اللہ ڈنوخواجہ کے بعد آئی جی سندھ ڈاکٹر کلیم امام کی پوسٹنگ سندھ حکومت کے لئے ایک ایسی ہڈی ثابت ہو رہی ہے جو جس کو وہ نہ نگل پا رہے ہیں نہ نکال پا رہے ہیں۔

سندھ میں پیپلز پارٹی کی نو سالہ حکومت کے دوران پندرہ کے لگ بھگ آئی جی تبدیل ہوچکے ہیں جبکہ دو دن قبل ڈاکٹر کلیم امام کو ہٹانے کے لئے ایک بار پھرپوری کابینہ سر جوڑ کر بیٹھی تھی۔

سندھ حکومت نے مسلسل تنازعات کے باعث آئی جی سندھ کلیم امام کو ہٹانے کا فیصلہ کرلیاہے،کلیم امام کے حوالے سے یہ بات سامنے آرہی ہے کہ وہ پہلے روز سے ہی سندھ حکومت سے تعاون نہیں کر رہے اور وزیراعلیٰ ہاؤس کے احکامات پر عمل درآمد میں پس وپیش سے کام لیتے ہیں اس لیئے حکومت سندھ اپنے تابع افسر کو آئی جی سندھ کے عہدے پرلانا چاہتی ہے ، اس مقصد کیلئے کابینہ نے آئی جی کی خدمات وفاق کے سپرد کرنے کی منظوری دینے کے بعد نئے آئی جی سندھ کے لیے ناموں پر غور شروع کردیا ہے۔جن میں مشتاق احمدمہر،کامران فضل اورغلام قادرتھیبوکےنام شامل ہیں۔

سندھ میں نیب کی کارروائیوں سے خوفزدہ اور پریشان حکمران پارٹی سندھ پولیس کا مکمل کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی ہے تاہم مخصوص مطالبات کو ماننے سے انکار کے باعث کلیم امام بھی سندھ کی حکمراں جماعت پیپلز پارٹی کی حمایت کھوچکے ہیں۔

ڈاکٹر کلیم امام سندھ پولیس میں کوئی خاطر خواہ کارنامہ تو انجام نہیں دے سکے لیکن اتنا ضرور ہے کہ وہ سندھ حکومت کے ان کاموں کا حصہ نہیں بنے جن کی وجہ سے آج سابق آئی جی غلام حیدر جمالی کرپشن کے الزام میں عدالتوں میں مقدمات بھگت رہے ہیں۔

حکومت سندھ کے اے ڈی خواجہ اورموجود آئی جی کلیم امام سے تعلقات تناؤکا شکار رہے،اے ڈی خواجہ کوایک بارحکومت ان کے عہدے ہٹانے میں کامیاب ہو گئی تھی تاہم وفاق کی مداخلت اورایک عدالتی حکم پر وہ دوبارہ آئی جی سندھ کے عہدے پر بحال ہو گئے تھے ان کے بعد آنے والے آئی جی کلیم امام کے تعلقات بھی حکومت کیساھ زیادہ خوشگوار نہیں رہے۔پولیس افسران کے تبادلوں کے معاملے پر حکومت اور آئی جی سندھ کئی بار آمنے سامنے آئے

سندھ میں پولیسنگ ایکٹ کے تحت آئی جی کی تقرری 3 سال کی مدت کے لیے ہوتی ہے، آئی جی سندھ پولیس کی تبدیلی کے لیے پبلک سیفٹی کمیشن کی تحریری سفارشات ضروری ہیں اورمروجہ ایکٹ کے تحت صوبہ اور وفاق باہمی مشاورت سے آئی جی کو قبل ازوقت تبدیل کرسکتے ہیں تاہم صوبائی حکومت کو آئی جی کی تبدیلی کے لیے وفاق کی جانب سے فوری تعاون ملنے کا امکان کم ہے جبکہ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی جی سندھ کی تبدیلی کے حوالے سے اندرون خانہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سندھ کے درمیان معاملات طے پاچکے ہیں۔

پاکستان کے صوبہ سندھ میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کا دعویٰ ہے کہ آئی جی پولیس کلیم امام کو ہٹانے کے لیے وزیر اعظم عمران خان کو آگاہ کیا گیا تھا۔ اس سے قبل صوبائی کابینہ نے انہیں ہٹانے کی منظوری دی تھی۔

سندھ حکوم نے آئی جی سندھ کیخلاف چارج شیٹ جاری کی ہے جس کے مطابق کلیم امام صوبے میں امن و امان قائم نہیں رکھ سکے ،ارشاد رانجھانی قتل کیس ۔دعا منگی اور بسمہ کے اغوا کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جو تاوان کی ادائیگی کے بعد رہا ہوئیں جبکہ آئی جی دفتر نے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیاہے کہ صوبے میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری آئی اور عوام کا اعتماد بحال ہوا جس کا ثبوت مقدمات کی شرح میں 23 فیصد اضافہ ہے، اسٹریٹ کرائم میں 7 فیصد کمی آئی اور 54 فیصد مفرور ملزمان گرفتار کیے گئےتاہم حکومت سندھ کے ترجمان کا دعویٰ ہے کہ کراچی میں موٹر سائیکل اور گاڑیاں چوری وچھیننے اور اسٹریٹ کرائمز میں اضافہ ہوا ہے۔

سندھ حکومت کے الزامات سے قطع نظر آئی جی سندھ کی تبدیلی کا یہ فیصلہ حکومت نے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ اور آئی جی کلیم امام کے درمیان جاری طویل سرد جنگ کے بعد کیا کیونکہ ڈاکٹر کلیم امام بھی سندھ حکومت کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکےیہی وجہ ہے کہ سندھ میں ہر چند ماہ بعد آئی جی تبدیل کرنے کا فیشن عام ہو چکا ہے تاہم بار بار عہدے کو متنازعہ بنناکر آئی جی کو تبدیل کرنے سے انتظامی انارکی پیدا ہوگی اوراس طرحکے اقدامات سے پولیس فورس میں افراتفری پیدا ہوگی جس کے نتیجے میں امن و امان کی صورتحال خراب ہوگی۔

Related Posts