انسانی حقوق اور خدائی دستور

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اللہ سبحانہ و تعالی کی نظر میں جرائم دو طرح کے ہیں۔ ایک وہ جن میں حکم الہی اور انسانی حقوق دونوں متاثر ہوتے ہیں۔ دوسرے وہ جن میں احکام الہی تو متاثر ہوتے ہیں مگر انسانی حقوق متاثر نہیں ہوتے۔ جن جرائم میں انسانی حقوق متاثر نہیں ہوتے ان کی سزا دینا اس نے اس دنیا کی عدالت اور ریاست کے ذمے نہیں لگایا۔

ان جرائم کی سزا اس نے آخرت پر موقوف رکھی ہے جبکہ جن جرائم میں احکام الٰہی کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق بھی متاثر ہوتے ہیں ان کی سزا سنانا اور دینااس نے اس دنیا کی عدالت و ریاست کے ذمہ بھی لگا رکھا ہے اور آخرت میں بھی سزا رکھی ہے۔ مجرم یہاں جو سزا پاتا ہے وہ انسانی حقوق کی پامالی کی پاتا ہے جبکہ آخرت والی سزا اسے احکام الٰہی کی پامالی کی ملے گی، جو اللہ غفور و رحیم چاہے تو معاف بھی کردے گا۔

لیکن اللہ سبحانہ و تعالی کے امور خود اللہ ہی دیکھے گا۔ یہاں کی عدالت کو یہ اختیار نہیں کہ وہ یہ فیصلہ سنائے کہ چونکہ اللہ سبحانہ و تعالی غفور و رحیم ہیں لھذا ہم انسانی حقوق کے کیس میں بھی مجرم کو باعزت بری کرتے ہیں۔ عدالت چاہے تو بری کر سکتی ہے۔ لیکن یہ کہہ کر بری کرنے کا اختیار نہیں کہ چونکہ اللہ غفور و رحیم ہے سو ہم بری کر رہے ہیں۔

گویا انسانی حقوق کے معاملات میں عدالت اتنی با اختیار ہے کہ اگر حدود کے کیس میں بھی ذرا سا شک شبہ نظر آئے تو ملزم کو بری کر رسکتی ہے۔ اور اس پر خدا کو کوئی اعتراض نہیں۔ اس نے عدالت کو یہ تو کہہ رکھا ہے کہ انصاف کے معاملے میں خیال رکھنا کہیں کوئی بے گناہ سزا نہ پا جائے۔ لیکن یہ نہیں کہا کہ خوب چھان پھٹک کرنا کہیں مجرم بچ نہ پائے۔ 99 ثبوتوں کے ہوتے ایک شک بھی پیدا ہوا تو ملزم بری۔ لیکن دوسری جانب اپنے معاملات میں اس نے عدالت کو دخل دینے کی ذرا بھی اجازت نہیں دی۔ وہ کہتا ہے میرے امور کے جج تم نہیں بن سکتے، وہ میں خود دیکھوں گا، تم بس انسانی حقوق تک رہو۔

وہ جرائم جن میں انسانی حقوق بھی پامال ہوتے ہیں اور وہ جرائم جن میں انسانی حقوق پامال نہیں ہوتے کی بہترین مثال شراب اور خنزیر کی حرمت کا معاملہ ہے۔ حرام دونوں ہیں مگر حد صرف شراب پینے پر ہے خنزیر کھانے پر نہیں۔ شراب پر حد اس لئے ہے کہ وہ پینے کے بعد نشے میں دھت شخص لوگوں سے گالم گلوچ کرنی شروع کر دیتا ہے اور جب نشہ ہرن ہوتا ہے تو کہتا ہے “سوری میں نشے میں تھا” سو شریعت کہتی ہے کوئی سوری نہیں، اسے لمیا پاؤ جبکہ خنزیر کھانے کے چونکہ ایسے کوئی نتائج نہیں نکلتے تو اس پر حد نہیں ہے۔

اس معاملے سے یہ بھی بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ انسانی حقوق کا سب سے بڑا محافظ خود خدا ہی ہے۔ اس نے انسانی حقوق کی حفاظت کا حکم بھی دے رکھا اور ایسا نہ کرنے والے کے لئے اسی دنیا میں سزاؤں کا نظام بھی دیا ہے۔ یہ کالم لکھنے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ جب سوشل میڈیا کے نام نہاد لشکر اسلام سے اس حوالے سے سوال ہوتا ہے کہ بھئی کیا وجہ ہے کہ ایک حرام پر سزا ہے مگر دوسرے پر نہیں ؟ تو ان کا جواب عام طور پر کچھ یوں ہوتا ہے

اللہ کی مرضی ہے، ہم کون ہوتے ہیں اس کے فیصلوں میں دخل دینے والے

Related Posts