بڑھتا ہوا عدم استحکام

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

منگل کو سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد پاکستان کا جاری سیاسی بحران مزید گہرا ہوگیا ہے۔ اس گرفتاری کے رد عمل میں خان کے حامی ملک بھر میں پرتشدد اور پر زور احتجاج میں مصروف ہیں اور اشتعال اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ مظاہرین فوجی اور سرکاری انفرا اسٹرکچرز کو بھی خاطر میں نہیں لا رہے ہیں، چنانچہ مختلف شہروں میں امن و امان کی بحالی کے لیے فوج کو تعینات کرنا پڑا ہے اور مزید بدامنی کو روکنے کے لیے انٹرنیٹ خدمات کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔
جاری سیاسی بحران میں مذاکرات کے ذریعے پر امن پیش رفت ہی پی ٹی آئی اور ریاست کے درمیان تشدد میں اضافے کو روکنے میں کردار ادا کر سکتی ہے۔
عمران خان، جنہوں نے 2018 میں کرپشن کے خاتمے کے بیانیے پر الیکشن جیت کر اقتدار سنبھالا تھا، کو 2022 میں پارلیمان میں عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے وہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے بھائی وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر قیادت مخلوط حکومت کی قانونی حیثیت کو چیلنج کر رہے ہیں، موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف وہی ہیں جنہیں کرپشن کے الزام میں سزا سنائی جا چکی ہے، تاہم گزشتہ ایک سال کے دوران مخلوط حکومت کی جانب سے عمران خان کے خلاف بھی ایک سو سے زائد قانونی کارروائیاں ہو چکی ہیں، لیکن انہوں نے تقریبا ہر کیس میں اپنی بے گناہی ثابت کی اور فوج اور حکومت پر اپنے خلاف سازش کرنے کا الزام لگایا۔
عمران خان کی گرفتاری بڑے ہی ڈرامائی انداز میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے میں عمل میں آئی، جہاں خان کو سماعت کے لیے پیش ہونا تھا۔ ہوا یہ کہ خان ابھی جج کے سامنے پیشی کے مراحل سے گزر رہے تھے کہ یکایک جس کمرے میں وہ موجود تھے، اس کا دروازہ توڑ کر نیم فوجی دستے اندر داخل ہوئے اور خان کو تقریبا گھسیٹتے ہوئے عمارت سے باہر لے گئے اور بکتر بند گاڑی میں ٹھونس کر چلتے بنے۔ خان کو پکڑنے کی زور آزمائی میں ان کے وکیل بھی زخمی ہو گئے۔ خان کی گرفتاری کے بعد پہلے سے ریکارڈ شدہ ان کا ویڈیو پیغام جاری کیا گیا، جس میں انہوں نے اپنے حامیوں سے کہا کہ وہ باہر آئیں اور اپنے حقوق اور جمہوریت کا دفاع کریں۔
چنانچہ خان کی اس پکار پر ان کے ہزاروں حامیوں نے لبیک کہا اور اسلام آباد، لاہور، کراچی، پشاور اور کوئٹہ سمیت کئی شہروں میں آنا فانا سڑکوں پر آگئے۔ انہوں نے ٹائر جلائے، پتھر پھینکے، عوامی املاک کی توڑ پھوڑ کی اور پولیس اور سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں کیں۔ کچھ مظاہرین نے آرمی اہلکاروں کی رہائش گاہوں اور راولپنڈی میں فوج کے ہیڈ کوارٹر میں بھی گھس کر خان کی گرفتاری کے پیچھے فوج کا ہاتھ ہونے کا الزام لگایا اور اپنا غصہ نکالا۔
حکومت نے افراتفری کو روکنے کے لیے عوامی اجتماعات پر پابندی عائد کرکے موبائل انٹرنیٹ سروس بند کر دی ہے۔ ساتھ ہی حکومت نے خان پر تشدد بھڑکانے اور ملک کو غیر مستحکم کرنے کا بھی الزام لگایا ہے۔
وزارت داخلہ کے مطابق خان کو بدعنوانی کے الزام میں حراست میں لیا گیا ہے، تاہم اس کے بعد کے واقعات خاص طور پر پی ٹی آئی کارکنان کی فوج کے ساتھ جھڑپوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مسئلہ کچھ اور ہے اور انہیں شاید کسی اور وجہ سے پکڑا گیا ہے۔
پاکستان میں سیاسی بحران ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب ملک کو معاشی چیلنجز، سیکیورٹی خطرات اور سفارتی دباؤ کا سامنا ہے۔ خان کی گرفتاری نے ان کے حامیوں اور مخالفین کے ساتھ ساتھ سویلین حکومت اور فوج کے درمیان پولرائزیشن اور عدم اعتماد کو بھی مزید گہرا کر دیا ہے۔ یہ صورتحال پاکستان کے استحکام اور جمہوریت کے لیے سنگین خطرہ ہے۔
خان کی گرفتاری کے نتیجے میں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ اب مزید تنازعات میں گھرتی دکھائی دے رہی ہے اور عوام کا حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں پر عدم اعتماد مزید بڑھتا جا رہا ہے۔ ملک مکمل ڈیفالٹ کے دہانے پر ہے، ایسے میں مزید عدم استحکام ملک کو مکمل دیوالیہ پن کے اندھے کنویں میں گرانے کیلئے آخری دھکے کا کردار ادا کر سکتا ہے!

Related Posts