لاک ڈاؤن میں توسیع، حکومت مستحقین کے ساتھ ساتھ تاجر برادری کو بھی ریلیف دے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Decision of lockdown, schools' closure in Karachi may be taken

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کورونا وائرس مملکتِ خداداد پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے 190 سے زائد ممالک میں پھیل رہا ہے جہاں مختلف حکومتیں لاک ڈاؤن کے دوران عوام الناس کے لیے ریلیف بھی مہیا کر رہی ہیں تاہم پاکستان میں لاک ڈاؤن میں توسیع سے تاجر برادری بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔

تحریکِ انصاف کی وفاقی حکومت اور پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت تاجر برادری کو خاطرخواہ ریلیف دینے میں بری طرح ناکام نظر آتی ہے جبکہ لاک ڈاؤن کے باعث تاجر برادری کا ہر گزرتے دن کے ساتھ ناقابلِ تلافی نقصان ہورہا ہے۔

پی ٹی آئی حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد متعدد بار تاجر برادری کو ریلیف دینے کے دعوے کیے، تاہم محسوس ایسا ہوتا ہے کہ تاجر برادری کو وزیرِ اعظم عمران خان بھی ریلیف نہیں دے پا رہے، جس کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں جو فی الحال ہمارا موضوع نہیں۔ 

اسٹیٹ بینک کے اعلانات

تین روز قبل اسٹیٹ بینک نے قرض پر شرحِ سود 4 فیصد سے کم کرکے 3 فیصد کردی اور ری فنانس اسکیم بھی متعارف کروائی گئی۔ ضمانت کے تقاضے نرم کیے گئے اور چھوٹے کاروباری حضرات کیلئے درخواست فارم کو سہل کیا گیا۔

اسٹیٹ بینک نے بینکوں کو یہ اجازت بھی دی کہ قرض لینے والوں سے ایس ایم ایز سے سپلائی چین روابط رکھنے والی کمپنیوں کی کارپوریٹ ضمانت لے کر فنانسنگ یعنی قرض کی سہولت دیں۔

قبل ازیں کارپوریٹ، زرعی، ایس ایم ای اور مائیکروفنانس کو قرض کی اصل رقم کی ادائیگی 1 سال کے لیے مؤخر کرنے کی دی گئی سہولت ان قرضوں پر بھی دینے کا اعلان ہوا  جو اسٹیٹ بینک کی ری فنانس اسکیموں کے تحت بینکوں اور ترقیاتی مالی اداروں سے لیے گئے ہوں۔

مرکزی بینک نے اعلان کیا کہ قرض کی اصل رقم کی ادائیگی ایک سال مؤخر کرنے سے قرض گیروں کو یہ فائدہ حاصل ہوگا کہ قرض کی مکمل ادائیگی اور میعاد ایک سال زیادہ ہوجائے گی لیکن اس دوران مارک اَپ یعنی سود کی ادائیگی اسی طرح جاری رہے گی۔

لاک ڈاؤن کے مختلف مطالب 

لاک ڈاؤن کا مطلب ایک عام انسان کے لیے کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ مثال کے طورپر ایک اسکول جانے والے بچے کے لیے لاک ڈاؤن کا مطلب چھٹیاں لیا جاسکتا ہے جس کے دوران اسے اپنا سارا وقت تفریح میں گزارنا ہے یا پھر گھر پر پڑھائی کرنی ہے جو اسکول کے مقابلے میں کم ہوگی۔

ایک ایسے شخص کے لیے لاک ڈاؤن کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہوسکتا ہے جس کی نوکری یا کاروبار پر لاک ڈاؤن سے کوئی اثر مرتب نہ ہوتا ہو۔ مثال کے طور پر صحافی برادری، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو لاک ڈاؤن کے باعث اتنی زیادہ مالی مشکلات درپیش نہیں جتنی تاجر برادری کو۔

تاجر برادری کے نزدیک لاک ڈاؤن کا مطلب گھر کا چولہا ٹھنڈا ہونا ہے۔ ایک کاروباری شخص جسے لاک ڈاؤن کے باعث معمولی پابندی کا سامنا ہو، وہ بھی لاک ڈاؤن سے متاثر ہورہا ہے اور وہ شخص بھی جسے حکومتی پابندیوں کے پیشِ نظر کاروبار بند کرکے بیٹھنا پڑ گیا ہے۔

مدد کی بجائے سود کے حصول کی پالیسی 

اسٹیٹ بینک کے اعلانات پر غور کیجئے تو سب سے آخر میں ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرض ادا کرنے میں جو لوگ اچھی گُڈ وِل رکھتے ہیں، وہی یہ سہولت حاصل کرسکتے ہیں۔ اسی طرح اصل رقم کی ادائیگی مؤخر تو کی گئی لیکن سود وہی رکھا گیا۔

یہاں ہمارا سوال یہ ہے کہ تاجر برادری کو ریلیف کے نام پر کیا دیا گیا؟  کاروبار کی دنیا میں بڑی مچھلیاں تو ایسی سہولیات سے فیضیاب ہوسکتی ہیں لیکن چھوٹے تاجر جو پہلے ہی قرض کی ادائیگی میں تاخیر اور اپنی قسطوں کو بار بار ری شیڈول کروا کر سود پر سود ادا کر رہے ہیں، ان کا کیا ہوگا؟

بلا شبہ شرحِ سود میں کمی اور قرض کی ادائیگی مؤخر کرنے جیسے فیصلے بڑے کاروباری طبقے کے لیے اہم ریلیف ثابت ہوں گے لیکن چھوٹے اور کمزور تاجر طبقے کے لیے یہ ریلیف حاصل کرنا ہی ایک خواب بن جائے گا۔

سود کا لفظی مطلب فائدہ ہے تاہم جو سود مرکزی بینک اور دیگر قرض دینے والے آپ سے وصول کرتے ہیں وہ رقم پر منافع ہے جسے معاف کر دیا جانا چاہئے کیونکہ کاروباری برادری پہلے ہی کاروبار کی بندش اور لاک ڈاؤن کی پابندیوں سے عاجز آچکی ہے۔

تاجر برادری اور مستحقین 

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں 484 ارب ڈالر کی امداد منظور کی ہے جو چھوٹے کاروبار، ہسپتالوں اور کورونا وائرس ٹیسٹنگ پر خرچ کی جائے گی۔ دوسری جانب پاکستان میں مستحقین کی امداد جاری ہے لیکن تاجر برادری کو مستحق بنانے کی پوری تیاری کی جارہی ہے۔

پاکستان میں تاجر برادری مستحقین کی امداد کے لیے بڑھ چڑھ کر تعاون کرتی ہے۔ مستحق افراد کیلئے امداد سے کسی کو انکار نہیں، تاہم حکومت کو کاروباری برادری کو بھی ریلیف دینا ہوگا تاکہ ملکی معیشت کا سہارا بننے والے خود کسی سہارے کے محتاج نہ ہوجائیں۔

پنجاب اور  سندھ کے مختلف لاک ڈاؤنز

یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ سندھ میں ہونے والا لاک ڈاؤن پنجاب کے مقابلے میں زیادہ سخت اور کاروباری برادری کے لیے سخت کوفت اور پریشانی کا باعث ہے۔

پنجاب حکومت کاروباری برادری کے لیے پہلے ہی 40 سے زائد صنعتیں کھولنے کی اجازت دے چکی ہے جو کاروباری برادری کے لیے تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند ہے۔

صوبہ پنجاب میں مزید صنعتیں، کاروبار اور دکانیں کھولنے کی اجازت دینے پر کام جاری ہے جبکہ سندھ میں لاک ڈاؤن کو مزید سخت کیا جارہا ہے۔

سندھ میں ہوم ڈیلیوری کا آپشن

گزشتہ ہفتے سندھ حکومت نے بڑا اعلان کرتے ہوئے چھوٹے تاجروں کو ہوم ڈیلیوری کے ذریعے کام کرنے کی ہدایت جاری کی اور روٹیشن کی بنیاد پر دکانیں کھولنے کی تجویز بھی دی۔

یہاں ہمارا سوال یہ ہے کہ ہر تاجر کے لیے ہوم ڈیلیوری کوئی آسان آپشن نہیں ہے۔ ایک ریسٹورینٹ اور کسی بڑے ہوٹل کے لیے تو ہوم ڈیلیوری آسان ہوگی لیکن ایک ٹھیلے والے کے لیے نہیں۔

دوسری جانب روٹیشن کی بنیاد پر دکانیں کھولنے کی تجویز اہم ہے۔ ہفتے کے روز بانٹ لیے جائیں کہ کس روز کس شعبے کی دکانیں کھلیں گی، تو وہ تاجر برادری کے لیے وقتی ریلیف ثابت ہوسکتا ہے۔ 

آخری راستہ 

لاک ڈاؤن میں نرمی اور آہستہ آہستہ لاک ڈاؤن سے نجات ہی تاجر برادری کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو پار لگانے کا آخری راستہ نظر آتا ہے کیونکہ ریلیف کے نام پر حکومتی اقدامات اونٹ کے منہ میں زیرہ ثابت ہورہے ہیں۔ تاجر برادری ہر گزرتے روز کے ساتھ تنزلی کی طرف جار ہی ہے۔

اگر ملکی معیشت کو مزید تنزل سے بچانا ہے  اور لاک ڈاؤن بھی جاری رکھنا ہے تو چھوٹے تاجروں کی امداد بھی ضروری ہے جسے اسٹیٹ بینک کے اعلانات تک محدود کرنا ناانصافی ہوگی۔ حکومت کو تاجر برادری کے مسائل کے حل کے لیے مؤثر حکمتِ عملی اپنانا ہوگی۔ 

Related Posts