نئی حکومت سے نیک توقعات

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

جمعرات کے روز وفاقی کابینہ کی تحلیل کا باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا جبکہ مشیرِ قانون مرتضیٰ وہاب نے کراچی سے یہ بیان جاری کیا کہ سندھ اسمبلی کی تحلیل کیلئے ڈرافٹ تیار کرلیا گیا ہے۔

مشیرِ قانون کے بیان کے مطابق سندھ اسمبلی آج یعنی جمعۃ المبارک کے روز تحلیل ہوجائے گی جبکہ عوام الناس کی بڑی تعداد سندھ حکومت اور وفاقی حکومت دونوں کی کارکردگی سے خوش نظر نہیں آتی جس کی وجہ لاعلمی بھی ہوسکتی ہے اور حقائق تک دسترس بھی۔

طویل عرصے سے سندھ پر حکمراں سیاسی جماعت پیپلز پارٹی سے خاص طور پر کراچی کے مکین نالاں ہیں تاہم جب انتخابات ہوتے ہیں تو پیپلز پارٹی کے لوگ ہی جیت کر اسمبلیوں میں جا بیٹھتے ہیں اور دیگر سیاسی جماعتوں کا کردار آٹے میں نمک کا سا ہوا کرتا ہے۔

گزشتہ 5سال میں وفاق میں 2 حکومتیں آئیں اور چلی گئیں، جیسا کہ ہمیشہ ہوا کرتا ہے۔ جی ہاں، پاکستان میں ہمیشہ سے ہی 5سال میں 2 حکومتوں کا پلان فالو کیا جارہا ہےجس کی وجہ شاید یہ ہو کہ لوگ ایک جیسے چہرے بار بار دیکھ کر اکتا جاتے ہیں، اس لیے اسٹیبلشمنٹ کو مجبوراً آگے آ کر حکومت بدلنی پڑ جاتی ہے۔

سندھ حکومت کی کارکردگی کی بات کی جائے تو کراچی کے دیگر معاملات کیلئے تو شاید ”کارکردگی صفر“ کا نعرہ درست بھی ہو، لیکن ٹرانسپورٹ کے معاملے میں سڑکوں پر رواں دواں مختلف رنگوں کی جدید بسوں کی آمد نے عوام کے شکوے اور شکایات کسی نہ کسی حد تک دور ضرور کردی ہیں۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو وفاقی حکومت میں وزیر اعظم کے عہدے پر براجمان رہنے کا موقع پونے چار سال تک اور شہباز شریف کو باقی ماندہ سوا سال تک ملا جس کے دوران دونوں ہی حکومتیں کوئی خاص کارکردگی دکھانے میں ناکام نظر آئیں۔

شہباز شریف حکومت نے سب سے بڑا معرکہ جو سر کیا وہ آئی ایم ایف سے ڈیل کو قرار دیا جاسکتا ہے جس کیلئے عمران خان کی جانب سے گڑھا کھودا گیا اور خاصا گہرا کھودا گیا تھا جس میں پی ڈی ایم حکومت منہ کے بل بھی گر سکتی تھی، لیکن خیر رہی۔

اگر ہم سیاسی مخالفین سے انتقام کی بات کریں تو عمران خان بھی کچھ کم نہیں تھے جن کے دور میں اپوزیشن کے زیادہ تر رہنما کرپشن کے مختلف جھوٹے سچے الزامات کے تحت مقدمات بھگتتے، گرفتاریاں دیتے اور جیلوں میں قید ہوتے نظر آئے۔

تاہم شہباز شریف حکومت نے تو حد کردی جس کے تحت پی ٹی آئی کے خلاف باضابطہ محاذ کھول دیا گیا اور ایک سیاسی جماعت کو دیوار سے لگانے کیلئے کریک ڈاؤن تک کیا گیا جس کے متعلق پی ٹی آئی والے انتہائی سنگین الزامات عائد کرتے ہیں۔

جاتے جاتے بھی شہباز شریف حکومت عمران خان کوجیل میں ڈالنا نہیں بھولی اور نگراں وزیر اعظم بھی اپنی مرضی کا لانے کے بعد عمران خان کو تادیر جیل میں قید اور انتخابات سے دور رکھنے کی کوشش کی جائے گی جس کیلئے 5سال تک کی نااہلی بھی کافی معاون ثابت ہونے والی ہے۔

یہ تمام تر کارگزاریاں تو گزشتہ حکومتوں کی ہوئیں، نئی حکومت کیلئے سوائے نیک توقعات کے اور کچھ دیا یا لیا نہیں جاسکتا کیونکہ پاکستان جو ڈیفالٹ کے دہانے کے قریب کھڑا تھا اور شاید اب بھی اس سے کچھ زیادہ دور نہیں گیا، اس سے زیادہ کچھ نہ دے سکے۔ سو نیک توقعات ہی کی جاسکتی ہیں کہ نئی حکومت کی پالیسیاں عوام اور سیاسی مخالفین کیلئے اتنی سخت نہ ہوں۔ 

 

Related Posts