بجلی کے بعد گیس کا بھی بحران، سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا کراچی لاوارث کیوں؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

بجلی کے بعد گیس کا بھی بحران، سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا کراچی لاوارث کیوں؟
بجلی کے بعد گیس کا بھی بحران، سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا کراچی لاوارث کیوں؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

گیس کو بنیادی ضروریاتِ زندگی کا ایک اہم حصہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ اگر گھر میں گیس دستیاب نہ ہو تو خواتین عموماً کچن کا رُخ نہیں کرتیں اور مرد حضرات کو کھانا باہر سے لانے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔

ایل پی جی ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مطابق آئندہ چند ہی روز میں کراچی سے گیس غائب ہونے والی ہے، عین ممکن ہے کہ تعلیمی ادارے کھلنے کے بعد ہمارے بچے ناشتہ کیے بغیر ہی اسکول جایا کریں کیونکہ سندھ کو 250 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کی کمی کا سامنا ہے۔

آئیے گیس کےبحران پر ایل پی جی ایسوسی ایشن کے اس بیان کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کراچی جیسے ملک کے سب سے بڑے شہر اور معاشی حب کیلئے یہ کتنی تباہ کن خبر ہے اور اس سے کیا کیا مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔

چیئرمین ایل پی جی ایسوسی ایشن کا بیان 

گیس بحران کے حوالے سے چیئرمین ایل پی جی انڈسٹریز ایسوسی ایشن آف پاکستان  عرفان کھوکھر کا کہنا ہے کہ سندھ 250 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کی کمی کا سامنا کر رہا ہے جس میں آئندہ چند روز میں اضافے کا خدشہ ہے۔ سردیوں میں یہ کمی 450 ایم ایم سی ایف ڈی تک جا پہنچے گی جو مزید 4 سے 5 ماہ تک جاری رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ تیل اور گیس کی دریافت کیلئے حکومت نے کچھ نہیں کیا، خدشہ ہے کہ گیس کہیں نایاب نہ ہوجائے۔ ملک بھر میں گیس کے ذخائر 7 اعشاریہ 5 فیصد روزانہ کی بیناد پر کم ہو رہے ہیں۔ سندھ کے ساتھ ساتھ پنجاب میں بھی گیس نہیں ملے گی۔

تحریکِ انصاف کی وفاقی حکومت اور پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے۔ عرفان کھوکھر کا کہنا تھا کہ ہمیں سندھ میں 17 کلومیٹر کی جگہ نہیں دی جارہی، عوام حکومتوں کی لڑائی میں پس جائیں گے۔ 

گیس بحران کی تازہ ترین صورتحال

ایس ایس جی سی نے گیس پریشر کم ہونے کی وجہ سے 3 روز قبل 48 گھنٹوں تک سی این جی اسٹیشنز بند رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ سوئی سدرن نے اعلان کیا کہ گھریلو اور کمرشل صارفین کو گیس دینے کیلئے ہفتے اور اتوار کو سی این جی اسٹیشنز کو گیس نہیں دیں گے۔

سوئی سدرن کمپنی کے اعلان کے مطابق موجودہ صورتحال یہ ہے کہ شہریوں کو گیس کے پریشر میں کمی کا سامنا ہے۔ کراچی میں متعدد علاقوں میں گیس کی لوڈ شیڈنگ بھی شروع ہوچکی ہے۔سوئی سدرن پہلے ہی سردیوں میں گیس کی قلت کے خدشے  کا اظہار کرچکی ہے جس کے مطابق سردیوں میں 30 کروڑ مکعب فٹ یا 25 فیصد گیس کی کمی ہوگی۔ 

شہرِ قائد میں کئی روز سے گیس کی قلت کے باعث صنعتوں اور گھریلو صارفین کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ صنعتی و پیداواری عمل میں بھی بری طرح متاثر رہا۔ دوسری جانب گیس میں کمی سے کے الیکٹرک کی لوڈ شیڈنگ ایک الگ مسئلہ ہے۔ 

سندھ حکومت اور وفاق کا جھگڑا

وزیرِ اطلاعات و بلدیات سندھ ناصر حسین شاہ کے مطابق سندھ ملک کی مجموعی گیس کا 68 فیصد دیتا ہے تاہم وفاق کی طرف سے جان بوجھ کر سندھ کی ضروریات پوری نہیں کی جاتیں۔

آج سے 3 روز قبل وزیرِ اطلاعات سندھ ناصر حسین شاہ نے کہا کہ سندھ سے 2 ہزار 200 ایم ایم سی ایف ڈی گیس قومی دھارے میں شامل کی جاتی ہے، خود سندھ کو 1 ہزار 700 ایم ایم سی ایف ڈی گیس چاہئے لیکن وفاق سے 900 سے 1000  ایم ایم سی ایف ڈی ملتی ہے۔

وفاقی وزیرِ توانائی عمر ایوب کے مطابق سندھ میں 17 کلومیٹر کے حصے پر گیس پائپ لائن بچھانے کا کام ہے جس کی سندھ حکومت نے اجازت نہیں دی۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے گزشتہ ادوار میں تیل اور گیس کے کوئی ذخائر دریافت نہں کیے۔

وزیرِ اعظم عمران خان رواں ماہ کے دوسرے ہفتے میں ہی اِس خدشے کا اظہار کرچکے ہیں کہ موسمِ سرما کے دوران گیس کی لوڈ شیڈنگ ایک بڑا مسئلہ بن کر اُبھرے گی۔

عمران خان کے بیان کے مطابق آئندہ برس موسمِ سرما میں گیس کا بحران ہوگا۔ وزیرِ اعظم نے کہا کہ ہم گیس کی کمی پوری کرنے کیلئے درآمدی گیس کو موجودہ ٹیرف میں فروخت نہیں کرسکتے۔ گیس سیکٹر پر گردشی قرضے کی ابتدا ہوچکی جو ماضی میں نہیں تھا۔ 

کراچی لاوارث کیوں؟

غور کیجئے تو کراچی جو کسی دور میں وطنِ عزیز کا وفاقی دارالحکومت ہوا کرتا تھا، آج ملک کا سب سے بڑا شہر اور معاشی حب ہونے کے باوجود ایک لاوارث شہر ہے جس کے وسائل تو سب استعمال کرتے ہیں لیکن مسائل کی ذمہ داری لینے کو کوئی تیار نہیں۔

گزشتہ ہفتے بھی کراچی کے مختلف علاقوں میں گیس کی آنکھ مچولی جاری رہی جن میں سی ویو، صدر، پی ای سی ایچ ایس اور دیگر شامل ہیں جہاں گیس نہ ہونے کے باعث ایل پی جی کے سلنڈرز اور کوئلے استعمال کیے گئے۔ 

متبادل ذرائع کیا ہوسکتے ہیں؟

بلاشبہ گیس نہ ہونا کوئی زندگی ختم کردینے والا بحران نہیں ہے کیونکہ ایندھن کے متبادل ذرائع بھی موجود ہیں جو ہم آسائش پسندی کی وجہ سے اپناتے ہوئے ہچکچاتے ہیں۔

کچن کی ضروریات کیلئے لکڑیاں جلانا، ایل پی جی سلنڈرز، کوئلہ اور مٹی کے تیل کے چولہے بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں تاہم کراچی جیسے شہر کیلئے ایندھن کے ایسے ذرائع کا استعمال خود حکومتِ وقت کیلئے ایک سوالیہ نشان ہوگا۔

اُمید کی کرن

پاکستان، بھارت، افغانستان اور ترکمانسان مل کر ایک نئے گیس پائپ لائن منصوبے کا سنگِ بنیاد رکھنے والے ہیں جس کا نام تاپی گیس پائپ لائن منصوبہ ہے۔ تاپی سے مراد خود یہی چاروں ممالک ہیں یعنی ترکمانستان (ٹی)، افغانستان (اے)، پاکستان (پی) اور انڈیا یعنی بھارت (آئی)۔ 

 9 روز قبل ہی تاپپی پائپ لائن منصوبے پر ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا جس میں منصوبے کی پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔ ترکمانستان نے پاکستان کو یقین دہانی کرائی کہ آپ کے جو بھی خدشات ہیں، وہ جلد دور کریں گے۔

 پاک ترکمانستان حکام منصوبے کی رفتار سے مطمئن ہیں، تاپی منصوبے کے تحت یومیہ 1 ارب 32 کروڑ مکعب فٹ گیس فراہم کی جائے گی۔ چاروں ممالک 10 ارب ڈالر کے اس منصوبے سے استفادہ حاصل کرسکیں گے۔ پاکستان کیلئے تاپی منصوبہ گیس بحران پر قابو پانے کیلئے اُمید کی کرن قرار دیا جاسکتا ہے۔ 

Related Posts