یہ کھیل اب ختم ہونے کو ہے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

دنیا میں جاری نظریاتی کشمکش پر نظر رکھنے والے اہل فکر نئی صدی کے آغاز سے ہی اس بات کی پیشنگوئی کرتے آئے ہیں کہ لبرل ڈیموکریسی اپنی طبعی عمر پوری کرچکی۔ اب اس کے فنا ہونے کی باری ہے۔

آج سے 15 برس قبل جنرل حمید گل سے ہونے والی وہ ملاقات آج بھی یاد ہے جس میں انہوں نے پورے تیقن کے ساتھ کہا تھا، مغربی نظام کی شکست و ریخ کی پہلی علامت یورپین یونین میں ٹوٹ پھوٹ کی صورت ظاہر ہوگی، اگلے مرحلے میں نیٹو ٹوٹے گا اور پھر پورے سسٹم پر سے مغربی عوام کا اعتماد اٹھتا چلا جائے گا۔

 جنرل گل تو آج موجود نہیں ہیں لیکن ہم بے یقینی کی شکار وہ یورپین یونین دیکھ رہے ہیں جس سے برطانیہ نکل چکا۔ نیٹو بھی افغانستان میں ایک ایسی قوت کے خلاف شکست سے دوچار ہوچکا جو سرے سے کوئی ریاستی اکائی ہی نہ تھی۔ ہنڈا موٹر سائیکلوں پر افغانستان کے طول و عرض میں اچانک چھوٹے چھوٹے گروپوں کی صورت حملہ آور طالبان دنیا کے 44 مالک کو شکست سے دوچار کرچکے جس کا مطلب یہ ہے کہ فاتحین نے وہاں ایسی نیٹو کو شکست دی ہے جسے بہت سے نان نیٹو ممالک کی بھی مدد حاصل تھی۔

ان سب کا لیڈر امریکہ دوحہ میں انہی فاتحین سے “معاہدہ شکست” کرچکا۔ اس معاہدے کے لئے ہونے والی بات چیت کے دوران وہ اپنی کوئی بھی بڑی شرط طالبان سے منوانے میں مکمل ناکام رہا ہے۔ یہاں تک وہ طالبان سے اس مغربی جمہوریت کے بقاء کی گارنٹی حاصل کرنے میں بھی ناکام ثابت ہوا جسے اس نے حامد کرزئی کی مدد سے افغان معاشرے میں جاری کیا تھا۔

وہ امریکہ جو دوسری جنگ عظیم کے بعد سے جمہوریت کا حاکم مطلق بن کر پوری دنیا پر اسے مسلط کرنے نکلا تھا، آج اپنے ہی گھر میں جمہوریت کو خطرے سے دوچار پا رہا ہے۔ ہفتہ بھر ہوا کہ دنیا انگشت بدنداں ان مناظر کی گواہ بنی جب کیپٹل ہل کے کوریڈورز میں انیسویں صدی کا وہ جھنڈا گشت کر رہا تھا جسے غلامی کے پرچم کے نام سے جانا جاتا ہے۔

سپیکر نینسی پلوسی کے دفتر میں ایک 60 سالہ باغی ان کی ٹیبل پر پیر رکھے نظر آیا تو ہاؤس میں سپیکر کی چیئر پر ایک نوجوان قابض تھا، اور ایک تیسرا شخص سپیکر پوڈیم بغل میں دبائے پھر رہا تھا جس پر کھڑے ہوکر وہ میڈیا سے ہمکلام ہوا کرتیں۔ دنیا کے سب سے مقدس ایوان میں دنیا کی سب سے منظم پولیس بے بس تماشائی بنی رہی۔

عمارت مکمل طور پر باغیوں کے قضے میں تھی اور اراکین پارلیمنٹ اسی عمارت تلے موجود بنکر میں بیٹھے اسی خدا کو یاد کر رہے تھے جسے یہ خود اپنے ایوانوں سے بے دخل کرچکے۔ اور مدت ہوئی کہ اسے وارننگ دے چکے کہ دیکھو گارڈ ! چرچ سے باہر مت نکلنا، ہم میں سے کچھ لوگ سنڈے کے سنڈے وہیں تم سے ملنے آجایا کریں گے۔ نظام اور حکومت سے تمہارا کوئی لینا دینا نہیں، وہاں ہماری خدائی چلے گی۔

یہ کیسی بے بسی ہے کہ بیسویں صدی کے آغاز پر اسی امریکہ سے کسی نے خدا کے لہجے میں فیصلہ سنایا تھا کہ 21ویں صدی امریکہ کی صدی ہوگی۔ لیکن اس صدی کے پہلے ہی بیس سالوں میں امریکہ ایک نائن الیون بھگت چکا، ترقی پذیر سے بھی نچلے درجے کے دو ممالک میں عسکری شکست کھا چکا، شام میں روس اس کے روبرو آیا تو اس نے وہاں سے قدم کھینچنے میں عافیت جانی، ترکی میں اس کی رچائی گئی فوجی بغاوت عوام کے ہاتھوں ذلت سے دوچار ہوچکی، طیب اردگان اس کا تمسخر اڑا رہا ہے، اور سب سے ہولناک یہ کہ جس کورونا سے تیسری دنیا کے ممالک میں صرف چند ہزار افراد لقمہ اجل بنے ہیں اسی کورونا سے امریکہ میں 4 لاکھ افراد مرچکے جبکہ یومیہ چار ہزار افراد کی اموات بدستور جاری ہیں۔

جانتے ہیں اس کا یہ حال کیوں ہے ؟ کیونکہ یہ منافقت کے اس نظام کا مائی باپ ہے جس میں کہا تو یہ جاتا ہے کہ “عوام کے لئے اور عوام کی مرضی سے” لیکن حقیقت میں نہ وہ عوام کے لئے ہے اور نہ ہی عوام کی مرضی سے ہے۔ وہ انجمن تاجران و صنعتکارانِ امریکہ کے لئے ہے اور انجمن تاجران و صنعتکارانِ امریکہ کی مرضی سے ہے، یعنی کیپٹل ازم۔ عوام تو اس میں بس وہ پرزہ ہیں جو کارپوریشنز کے کارخانے چلانے کے کام آتے ہیں۔ اگر عوام کی مرضی کوئی معنی رکھتی تو پاکستان سے یہ کیوں کہا جاتا کہ تمہیں اپنی مرضی کا نصاب تعلیم پڑھانے کی اجازت نہیں ؟ کیا پاکستانی عوام کے پاس اپنے بچوں کو اپنی مرضی کا تعلیمی نصاب پڑھانے کا اختیار ہے ؟ کیا ہمارے پاس اپنی مرضی کی میڈیا پالیسی تشکیل دینے کا اختیار ہے ؟ کیا ہم اپنے کسی بھی شعبے کی پالیسی اپنی مرضی سے تشکیل دینے کی آزادی رکھتے ہیں ؟

اگر فضل اللہ جیسا درندہ اپنا جہل ہم “مسلط” کرنا چاہتا تھا تو کیا امریکہ بھی ہم پر ہر چیز مسلط نہیں کرتا آیا ؟ سوال یہ ہے کہ کیا “مسلط کرنا” جرم ہے یا امریکہ کے علاوہ کسی کا مسلط کرنا جرم ہے ؟ کیا ہم اور کیا ہماری اوقات، امریکہ تو اس چین کو بھی بخشنے پر آمادہ نہیں جو جلد اس کی چوہدراہٹ ختم کرنے کو ہے۔

کیا اس نے چین میں 1989ء میں تیانمن اسکوائر والی بغاوت اپنا نظام مسلط کرنے کے لئے نہیں کرائی تھی ؟ کیا ابھی چند سال قبل جارجیا کی پارلیمنٹ پر اس نے باغیوں سے قبضہ نہ کرایا تھا ؟ کیا روس میں ولادیمیر پیوٹن کے خلاف عوام کو سڑکوں پر لانے میں ہیلری کلنٹن کے دفتر خارجہ کا ہاتھ ثات نہ ہوچکا ؟ کیا قذافی کی لاش سڑکوں پر گھسیٹے جانے کی خبر پاکر ہیلری نے یہ نہیں کہا تھا “ہم آئے، ہم چھا گئے” ؟ کیا دنیا بھر کے انتخابی نظام میں اس نے براہ راست مداخلت نہیں کی ؟ کیا کئی ممالک میں وزرائے اعظم اس کے اشارے پر پھانسی نہیں لٹکائے گئے ؟ یہی ہے مغربی جمہوریت کا خلاصہ یا کچھ اور ہے ؟

یہ نظام عوام کا بھلا کرنے کی صلاحیت رکھتا یا یہ واقعی عوام کے لئے ہوتا تو خود امریکہ میں 7 کروڑ ووٹ اس ٹرمپ کو کیوں پڑتے جس نے الیکشن سے قبل ہی کہہ دیا تھا کہ اگر میں نہ جیتا تو یہ دھاندلی ہوگی ؟ اور لوگ لبرل ڈیموکریسی کے بجائے نیشنلزم کا نعرہ کیوں لگاتے ؟ وہی چیز جو امریکہ دوسرے ممالک میں کروا کر اسے “انقلاب” کا نام دیا کرتا تھا آج اپنے گھر میں ہوئی تو “بغاوت” کہلائی۔ یہ منافقت نہیں تو کیا ہے ؟ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ گرفتاریوں اور سزاؤں کے ذریعے امریکہ کی اندرونی صورتحال پر قابو پالیا جائے گا تو ایسا اسی صورت ممکن ہے جب ٹرمپ کے ہر ووٹر کو قید کردیا جائے۔

نیشنلزم کی یہ تحریک امریکی سماج میں اتنی گہری سرایت کرچکی ہے کہ فرانسس فوکویاما جیسا مفکر بھی لبرلزم کے زوال کی باتیں کرنے پر مجبور ہے۔ جبکہ نوم چومسکی تو پہلے ہی اس پر لعنت بھیج چکا ہے۔ ایسے میں یہ سوال بہت اہمیت اختیار کرچکا ہے کہ روس اور چین سمیت پوری دنیا کو لبرل ڈیموکریسی کے بھاشن دینے والا امریکہ اب کسی کو یہ بھاشن دینے کے لائق بچا ہے ؟ یہ ہے وہ سوال جو آنے والے دنوں میں پوری دنیا میں زیر بحث آئے گا۔ اور یہ ساری بحث دنیا پر امریکی گرفت بہت تیزی سے کمزور کرتی چلی جائے گی۔

جس امریکہ میں لاکھوں بچے بے گھر ہیں، اور لاتعداد انسان خیراتی اداروں سے کھانا کھانے پر مجبور ہیں اس امریکہ کی حکومتیں ملینز آف ڈالرز دوسرے ملکوں میں بغاوت پر صرف کرتی آئی ہیں۔ صاف نظر آرہا ہے کہ یہ کھیل اب ختم ہونے کو ہے !

Related Posts