خالصتان کے شعلے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پچھلے ایک ہفتے سے اس خطے کی سیاست پر خالصتان کا پرچم لہرا رہا ہے۔ سکھوں کا مذہبی پرچم، مقدس پرچم، بغاوت کا پرچم اور علیحدگی پسندی کا پرچم۔ اور یہ لہرایا کسی سکھ کے گھر پر نہیں بلکہ دہلی کے تاریخی لال قلعے پر ہے۔ کیا یہ پرچم کسانوں کے احتجاج کے دوران پیدا ہونے والے کسی وقتی جذباتی لمحے کے نتیجے میں اس قلعے تک پہنچا؟ نہیں، قطعاً نہیں! اس کے پیچھے را کی وہ 20 سالہ عظیم پلاننگ موجود ہے جو اس نے اس خیال سے تیار کی تھی کہ پاکستان کے سینٹرل پنجاب سے بالائی پنجاب تک کے خطے کو خالصتان تحریک کا مرکز بنا دیا جائے۔

پلان یہ تھا کہ اس کے نتیجے میں سکھوں کی جملہ سرگرمیاں بھی پاکستان کے کھاتے میں ڈالی جائیں اور سینٹرل پنجاب کو گریٹر پنجاب کی دو طرفہ سوچ کا مرکز بنا کر پاکستانی پنجابیوں کو بھی لسانیت کے نشے کا عادی بنا یا جائے۔ وہ نشہ جو پاکستانی پنجابیوں کو پاکستانیت کے بجائے پنجابیت کے سرور میں مبتلا کردے۔ اس منصوبے کے خالق بھارتی پنجاب کے بعد سکھوں کے دوسرے بڑے مرکز کینیڈا کے صوبے انٹاریو میں بیٹھے ہیں۔

اندراگاندھی دور کے آپریشن بلیو اسٹار کے بعد خالصتان تحریک کا مرکز سکھوں کی بڑی تعداد کے ساتھ کینیڈا منتقل ہوا تو را بھی اس پر نظر رکھنے اور سدباب کی غرض سے پیچھے پیچھے پہنچی۔ آج صورتحال یہ ہے کہ کسی بھی مغربی ملک میں را کی سب سے بڑی موجودگی کینیڈا میں ہی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ بھارت کی سکھوں والی سٹیٹس نہ صرف پورے بھارت کے لئے غلہ پیدا کرتی ہیں بلکہ بھارتی فوج کیلئے سپاہ کی ریکروٹمنٹ کا سب سے بڑا مرکز بھی یہی اسٹیٹس ہیں۔

ان سٹیٹس کے 70 فیصد سے زائد نوجوان فوج کو جوائن کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اس وقت سکھ انڈین آرمی کا 15 فیصد ہیں جبکہ مودی کا گجرات انڈین آرمی کو صرف 2 فیصد جوان ہی دے پاتا ہے۔ یوں گویا بھارت کی معیشت اور دفاع دونوں میں سکھ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لہٰذا را کو خالصتان کے حوالے سے بہت زیادہ سرگرم رہنا پڑتا ہے۔

نائن الیون کے بعد ہمارے خطے میں جو صورتحال پیدا ہوئی اس کے نتیجے میں پاکستان کو بہت حد تک بیک فٹ پر جانا پڑا جبکہ بھارت کو فرنٹ فٹ پر آنے کا موقع ملا۔ بھارت تو افغانستان میں قونصل خانوں کا جال بچھا کر امریکی ”پارٹنرشپ” میں پاکستان کے خلاف بڑا کھیل کھیلنے لگا اور پاکستان اسی امریکہ سے ”ڈومور” کے پریشر کا سامنا کرتا رہا۔ بھارت نے بلوچ علیحدگی پسندوں اور ٹی ٹی پی کے ذریعے جو کھیل ہماری مغربی سرحدوں پر رچائے رکھا اس سے تو سب آگاہ ہیں لیکن وہ ہماری مشرقی سرحد سے جو باریک کھیل رچا رہا تھا وہ ہمارے عام شہریوں کی نظروں سے اوجھل رہا اور اسے اوجھل ہی رہنا چاہئے تھا۔

بھارت کا یہ باریک کھیل اس کی را اونٹاریو سے رچا رہی تھی جہاں نہ صرف یہ کہ را خالصتان تحریک میں سرایت کرچکی تھی بلکہ اس نے کینیڈا کی سکھ آبادی میں ایسے سکھوں کا ایک نیٹ ورک بھی قائم کرلیا تھا جو پاکستان سے ”بے پناہ محبت” کا اظہار کرتے ہوئے پیپلز ٹو پیپلز کانٹیکٹ کی آڑ میں را کے مشن پر تھے۔ یہ سکھ پاکستان آتے تو پاکستانیوں کی میزبانی سے خود کو بہت زیادہ متاثر ثابت کرنے کیلئے نہ صرف ٹی وی چینلز کو بڑے جذباتی انٹرویوز دیا کرتے تھے بلکہ اس مقصد کے لئے یوٹیوب چینلز بھی قائم کرلئے تھے جہاں پاکستان سے محبت کے جذباتی مظاہرے ہوتے۔

را کے اس مشن میں ”بابا گرونانک انٹرنیشنل یونیورسٹی” کو کلیدی اہمیت حاصل تھی جس کا آئیڈیا پاکستان سے اپنی نام نہاد محبت کا اظہار کرنے والے یہ کینیڈین سکھ ہی لائے تھے۔ اس یونیورسٹی کے مین کیمپس کیلئے تو سینٹرل پنجاب کا ننکانہ صاحب نظروں میں تھا جبکہ اس کا دوسرا کیمپس حسن ابدال میں بنانے کا خواب دیکھا جا رہا تھا تاکہ ان دو کیمپس کے بیچ کے علاقے کو را کے اسپانسرڈ سکھوں کی سرگرمیوں کا مرکز بنایا جا سکے۔

اسی عرصے میں ایک مشکوک تحریک ”امن کی آشا” بھی شروع ہوگئی جس کا مرکزی تصور پیپلز ٹو پیپلز کانٹیکٹ کا ہی تھا۔ یہ امن کی آشا را کے مجوزہ منصوبے کیلئے چھتری کا کام دینے کیلئے سامنے لائی گئی تھی جو سرحد کی دونوں جانب بھائی چارگی کے گیت گایا کرتی تھی۔ یہی وہ عرصہ ہے جب سکھوں نے پاکستان کے متروکہ وقف املاک پر نظریں گاڑ لیں تاکہ اپنی جڑیں تاریخی طور پر گہری کی جاسکیں۔

یہی وہ عرصہ ہے جب کینیڈین سکھوں نے ”روحانی سکون” کے لئے پاکستان میں مستقل قیام کی باتیں شروع کردیں۔ یہی وہ عرصہ ہے جب ٹی ٹی پی کے ذریعے قبائلی علاقوں اور پشاور میں صدیوں سے آباد سکھوں پر حملے کرا کر انہیں ننکانہ صاحب یا حسن ابدال میں اجتماعی آبادی کی شکل اختیار کرنے کا انتظام کیا گیا۔ یہی وہ عرصہ ہے جب پاکستان کے کچھ نامی گرامی پنجابی دانشور یہ کہنا شروع ہوئے کہ ہمارے ہیروز مغل یا احمد شاہ ابدالی نہیں بلکہ بھگت سنگھ اینڈ کمپنی ہیں اور سب سے اہم یہ کہ یہی وہ عرصہ ہے جب پاکستانی سکھ پربندھک کمیٹی نے اچانک گریٹر پنجاب کی باتیں شروع کردیں۔

وہ گریٹر پنجاب جس میں انڈین ہی نہیں بلکہ پاکستانی پنجاب کا سینٹرل پنجاب سے لے کر بالائی پنجاب تک علاقہ بھی شامل ہو۔ قابل غور بات یہ ہے کہ حال ہی میں ہمارے کچھ پنجابی دانشور یہ بیانیہ بھی سامنے لائے کہ تقسیم ہند کا اصل مقصد تو پنجاب کی تقسیم تھا۔ ان تمام تیاریوں کے ساتھ ہی خالصتان تحریک نے پاکستانی اداروں کو ایسے پیغامات بھی بھجوانے شروع کردئے کہ اگر سینٹرل پنجاب میں ہمیں کام کا موقع دیا جائے تو ہم بھارت پر حتمی وار کرتے ہوئے وہاں خالصتان کا خواب شرمندہ تعبیر کرکے بھارت کو توڑ سکتے ہیں۔

را کا یہ پورا منصوبہ بہت گہرا، بہت مربوط اور بہت عمدگی سے بنا گیا تھا مگر وہ مار یہاں کھا گئے کہ ان کا خیال تھا آئی ایس آئی کچھ نہیں جانتی اور وہ پاکستان کی مغربی سرحدوں پر مصروف ہے۔ یہ بات تاریخی طور پر ثابت شدہ ہے کہ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد سے آئی ایس آئی ہمیشہ سے را سے دو قدم آگے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ ہمارے پالیسی ساز جانتے ہیں کہ اگر ایسا نہ ہوا تو پاکستان سنگین مسائل سے دو چار ہوجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ آج امن کی نام نہاد آشا اپنی موت آپ مرچکی ہے متروکہ وقف املاک والا کھیل ہمارے سردار شام سنگھ فیل کرچکے۔

بابا گرونانک انٹرنیشنل یونیورسٹی را کیلئے انڈے بچے پیدا کرنے کے لائق نہیں رہی۔ پاکستانی سکھوں کو فوج اور پولیس میں شامل کرکے قومی دھارے کا اٹوٹ حصہ بنا لیا گیا، صرف فوج اور پولیس ہی نہیں بلکہ کھیل کے میدان میں بھی انہیں آگے لانے کا کام جاری ہے۔ بھگت سنگھ بھی چند نمک حرام پنجابی دانشوروں کا ہی ہیرو بن پایا ہے۔ اسے پنجاب کا مسلمان اپنا ہیرو نہیں مانتا۔ ایک اہم بات یہ کہ ہم نے خالصتان تحریک کے کسی ہرکارے کو پاکستان میں قدم رکھنے کا موقع ہی نہیں دیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کرتار پور راہداری کی صورت شطرنج کی بساط پر ایسی موو کی گئی کہ را کے اشاروں پر ناچنے والے بھارتی اینکرز نوجوت سنگھ سدھو کو غدار اور کرتار پور راہداری کو بڑی سازش قرار دیتے ہوئے تلملا رہے ہیں۔

اس تلملاہٹ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہماری یہ موو اس قدر مؤثر ثابت ہوئی ہے کہ پوری بازی ہمارے ہاتھ آگئی۔ ایسے میں بھارت میں سکھ کسانوں کی تحریک شروع ہوئی اور زور پکڑ گئی تو مودی نے بی جے پی کے کچھ ہرکاروں کی مدد سے دہلی میں فساد کروا کر اس تحریک پر سے پرامن سیاسی تحریک کا لیبل ہٹانے کا پلان بنایا اور اس کیلئے تاریخ بھی سوچ سمجھ کر بھارتی یوم جمہوریہ والی رکھی گئی تاکہ کسانوں کو بھارتی جمہوریہ کا دشمن ثابت کرکے اس تحریک کو غداروں کی تحریک کے طور پر دکھایا جاسکے اور یوں اس کیلئے رائے عامہ کی ہمدردیاں ختم کرادی جائیں مگر پتہ نہیں کیا ہوا۔ اسی فساد میں سے کچھ جوان لال قلعے پر چڑھ گئے اور خالصتان کا پرچم لہرا دیا۔ سنا ہے را ہیڈ کوارٹر میں کچھ کلبھوشن سر جوڑ کر اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ لال قلعے پر اسلام کا پرچم لہرانے کی بات کرنے والوں نے ہی کہیں سجی دکھا کر کھبی تو نہیں مار دی؟ اللہ ہی جانے کون بشر ہے!

Related Posts