ملکی معیشت کی ناگفتہ بہ حالت ۔۔۔۔ ہنگامی اقدامات کی ضرورت

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ملک بھر میں اس وقت معاشی صورتحال انتہائی دگرگوں ہے، سیاسی سطح پر بھی عام انتخابات کیلئے غیر یقینی صورتحال کے باعث بحران موجود ہے جبکہ ان غیر معمولی حالات کیلئے جن غیر معمولی فیصلوں کی ضرورت ہے وہ کہیں نظر نہیں آتے۔

جمعے کے روز بھی نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے اسمگلنگ کے معاملے پر اجلاس کی صدارت کے دوران حکم دیا کہ اسمگلنگ روکی جائے اور اسمگلنگ میں ملوث حکام کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔

گویا ڈالرز کی افغانستان کی جانب اسمگلنگ کیلئے پاکستان کے حکام کی سرپرستی ضروری ہے، اتنا تو نگران حکومت بھی سمجھتی ہے اور دنیا کا کوئی بھی قانون آپ کو اپنے ہی ملک سے ڈالر کی بیرونِ ملک اسمگلنگ روکنے کیلئے اقدامات اٹھانے سے نہیں روکتا جبکہ پاکستان میں ایسے قوانین موجود ہیں جو ڈالرز کی چوری اور اسمگلنگ سمیت دیگر جرائم کے انسداد کی روک تھام میں معاون ہیں تاہم یہ تمام تر معاملہ صرف قوانین کے نفاذ پر آ کر رک جاتا ہے۔

ڈالرز کی اسمگلنگ کے باعث روپے کی بے قدری میں ہر گزرتے روز کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے جس سے اشیائے ضروریہ سمیت ہر چیز کے نرخ آسمان کو چھونے لگے ہیں ، بجلی کے بلز سمیت ہر قسم کی مہنگائی کی شرح قابلِ برداشت حد عبور کرچکی ہے جس کے باعث عوام کی بڑی تعداد آج سڑکوں پر نظر آتی ہے، اس کے باوجود اسمگلنگ مافیا کو لگام نہیں دی جاسکتی۔ پاکستان کی افغانستان کے ہمراہ 2600کلومیٹر کی مشترکہ سرحد ہے جہاں سے اسمگلنگ 100فیصد روکی تو نہیں جاسکتی، تاہم اسے محدود ضرور کیاجاسکتا ہے۔

سابق شہباز شریف حکومت نے جاتے جاتے اپنے اراکین پارلیمنٹ کو اربوں روپے دے دئیے کہ اپنے اپنے حلقوں میں ترقیاتی کام کرائیں اور عوام کی اکثریت جانتی ہے کہ ترقیاتی کاموں کے نام پر ان کے ساتھ پہلے سے کیا ہوتا آرہا ہے اور آگے کیا ہوگا۔ نگران حکومت کو چاہئے کہ ان تمام اراکین سے جتنے بھی ترقیاتی فنڈز باقی بچ گئے ہیں، فوری طورپر واپس منگوا لیں ۔ اسی طرح کے دیگر غیر معمولی فیصلوں کے ذریعے ملک کو فوری طور پر ڈالرز میسر آسکتے ہیں جو ملکی معیشت کا سہارا بن سکیں۔

 وزیر اعظم کی جانب سے یہ بیان کہ اتنی مہنگائی نہیں ہے جتنا کہ شور مچایا جارہا ہے، اس بات کا غماز ہے کہ نگران حکومت کو ملکی معیشت کی صورتحال کا درست طور پر ادراک نہیں۔ اگر اس کا ادراک ہوجائے تو بقول شاعر

ابھی تو کچھ ہوا نہیں، ابھی تو ابتدا ہے یہ

ابھی وہ وقت آئے گا کہ ساری قوم روئے گی

غریب آدمی کیلئے زندگی عذاب بن چکی ہے۔ چائے کی پتی جس میں سوکھی روٹی ڈبو کر کھالیا کرتے تھے، اس کی قیمت 94فیصد بڑھ گئی ہے۔ آٹے کی قیمت 94.5فیصد، چاول 67فیصد، پاؤڈر دودھ  کی قیمت 30فیصد بڑھ گئی۔ تنخواہ کا 70فیصد حصہ بلز اور پیٹرول پر خرچ ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر عوام سڑکوں پر نکل آئیں تو سیاسی لیڈر شپ ملنے پر شکر ادا کرنا چاہئے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ سری لنکا میں لیڈر شپ کے بغیر عوام نے حکمرانوں کا کیا حال کیا؟

عمران خان حکومت نے آئی ایم ایف کے معاہدے پر عمل نہ کرکے بہت بڑی غلطی کی لیکن کیا کیا جائے کہ جب ہمارا بجٹ بنتا ہے تو 6 ہزار521ارب کا خسارہ اس وقت ہوجاتا ہے اور 5 ہزار 831ارب روپے سود ادا کیا جاتا ہے۔ ان تمام تر مسائل کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے، اگر مندرجہ ذیل نکات پر عمل کر لیا جائے:

جن دنوں میں لیبیا میں سفیر تھا، میں نے لیبیا میں سنگل کنٹری نمائش کی بات کی۔ اس وقت پاکستان کی لیبیا کو برآمدات کا حجم 68 ہزار ڈالر تھا جو لاکھوں ڈالرز تک جا پہنچا۔ ہم نے چھوٹے چھوٹے تاجروں سے کہا کہ اپنے اپنے کنٹینرز لا کر یہاں سے ڈالرز کمائیں اور وطن واپس پہنچیں۔ ہمارے ملک کے متعدد ممالک میں سفارت خانے موجود ہیں اور خود سفیروں کے گھروں میں بڑے بڑے لان موجود ہیں۔ جہاں جہاں ممکن ہو نگران حکومت سنگل کنٹری نمائش پر توجہ دے، ملک میں آج سے ہی ڈالرز آنا شروع ہوجائیں گے۔

جب میں متحدہ عرب امارا ت میں پاکستان کا سفیر بنا تو وہاں سے پاکستان کو ترسیلات ِ زر کا حجم 1.2ارب ڈالر تھا جو میرے عہدہ چھوڑنے تک 3.3ارب ڈالرز تک جا پہنچیں جس کیلئے ہم نے وہاں موجود لوگوں کو عزت و احترام دیا اور ان میں سرٹیفکیٹس تقسیم کیے کہ ملک کیلئے آپ ترسیلاتِ زر بھیج رہے ہیں تو ملک بھی آپ کی ان کاوشوں کی قدر کرتا ہے۔ آج پاکستان کے تمام سفارت خانوں کو بھی چاہئے کہ سمندر پار پاکستانیوں میں اسی طرح تعریفی اسناد تقسیم کریں اور انہیں عزت و احترام دیں۔ ترسیلاتِ زر کی شرح بہتر ہوجائے گی۔

آج لوگ مہنگائی کے باعث سڑکوں پر ہیں اور جو نہیں ہیں، ان کے ذہنوں میں بھی احتجاج،ناانصافی سے نفرت اور حکمران طبقے سے انتقام کا لاوا پک رہا ہے اور اس سے پہلے کہ یہ لاوا پھٹ پڑے، جو لوگ اپنا علاج چھوڑ کر اور اپنے بچوں کو تعلیمی اداروں سے نکال کر صرف کھانے پینے کی چیزیں خریدنے پر مجبور ہو چکے ہیں، جب تک اشرافیہ ان لوگوں کی حالت کو نہیں سمجھے گی، اس وقت تک نہ پاکستان اسپیشل انویسٹمنٹ کونسل کے ثمرات حاصل کرسکے گا، نہ ہی ملک کی معاشی حالت سدھارنے کیلئے جارحانہ سفارت کاری اپنائی جاسکے گی۔

اگر ہم سورج کی روشنی کا استعمال کرتے ہوئے بجلی کی زیادہ سے زیادہ بچت کریں اور اسی طرح پیٹرولیم مصنوعات کی بھی بچت کی جائے تو ملک میں موجود توانائی کا بحران بڑی حد تک کم ہوسکتا ہے۔ درآمدات و برآمدات کے توازن سے ہی خسارے اور سرپلس کا تعین کیا جاسکتا ہے اور پاکستان کی درآمدات میں ایسی بے شمار اشیا موجود ہیں جن کی درآمدات روک کر ملک کو ڈالرز کے بحران سے بچانے کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے اور ایسی بہت سی برآمدات ہیں جنہیں زیادہ سے زیادہ فروغ دے کر ڈالرز پاکستان میں لائے جاسکتے ہیں۔

اسی طرح سمندر پار پاکستانیوں کو پیریٹی لون دئیے جاسکتے ہیں۔ پاکستان کی سیکڑوں ہزاروں ایکڑ اراضی غیر استعمال شدہ ہے یا پھر سرکاری اداروں کی تحویل میں موجود ہے جس کا مملکتِ پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں۔ ایسی اراضی کو سمندر پار پاکستانیوں کو آسان اقساط پر فراہم کرتے ہوئے ان سے بکنگ کی مد میں بھاری بھرکم ڈالرز وصول کیے جاسکتے ہیں۔ ایسے ہی بے شمار دیگر اقدامات کے ذریعے پاکستان میں زرِ مبادلہ لا کر معیشت کی بحالی کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔

Related Posts