عام انتخاب ۔۔۔ 90روز۔۔۔ اِک سہانا خواب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پیپلز پارٹی اور ن لیگ سمیت پی ڈی ایم کی جماعتوں نے وفاق میں حکومت سنبھالنے کے کم و بیش سوا سال پر محیط عرصے کے دوران تو انتہائی چابکدستی سے ایک مشترکہ لائحہ عمل اپناتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے الیکشن فوری منعقد کروانے کے مطالبے کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کا کردار ادا کیا، تاہم جیسے ہی حکومت ختم ہوئی، پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں نے ن لیگ سے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ کرتے ہوئے قبلہ ہی تبدیل کر لیا ہے۔

دلچسپ طور پر سب سے پہلے تو سابق وزیرِ خارجہ کے طور پر ذمہ داریاں سرانجام دینے والے بلاول بھٹو زرداری کی جماعت پیپلز پارٹی نے پینترا بدلا اور سی سی آئی اجلاس میں مردم شماری کے متعلق کیے گئے مشترکہ فیصلے سے بہت حد تک لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے مردم شماری کی حلقہ بندیوں کے ضمن میں الیکشن کے انعقاد میں تاخیر کے فیصلے کو مایوس کن قرار دے دیا۔ایک بار جب سی سی آئی نے مردم شماری کی توثیق کردی تو الیکشن کمیشن پر یہ لازم ہوجاتا ہے کہ وہ حلقہ بندیوں کا از سر نو تعین کرے۔

حلقہ بندیوں کے تعین کیلئے الیکشن کمیشن نے 4ماہ کا وقت مانگ لیا ہے جبکہ الیکشن کمیشن کا ایکٹ 230 ترامیم کے بعد کمیشن کو اور زیادہ بااختیار بنا چکا ہے جس کے تحت اپنے انتظامی و انصرامی معاملات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا جاسکتا ہے۔ سی سی آئی میں پی پی پی سمیت دیگر پارٹیوں نے خوشی خوشی مردم شماری کے فیصلے کی نہ صرف توثیق کی بلکہ نوٹیفائی بھی کردیا جس سے جس نے جو فوائد حاصل کرنے تھے، انہوں نے حاصل کر لیے اور تمام تر پیشرفت کے بعد یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ الیکشن 3 ماہ میں ہونا چاہئے۔

دراصل یہ عوام کو سبز باغ دکھانے کے مترادف ہے کہ اگر 90روز میں ہی الیکشن کرانے تھے تو نئی مردم شماری کی توثیق اور نوٹیفائی کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ 2017ء کی مردم شماری پر الیکشن کا انعقاد ہوسکتا تھا۔ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کی جو نشستیں ہیں، اب بھی ان میں اضافہ نہیں ہورہا۔ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی سمیت جتنی بھی پی ڈی ایم کی پارٹیاں ہیں، انہوں نے مردم شماری کو منظور کرکے پسِ پردہ   کیا کیا فائدے  حاصل کیے، اس کا پتہ تو مستقبل میں ہی چلے گا جب تمام باتیں کھل کر عوام کے سامنے آنا شروع ہوجائیں گی۔

اب یہ ایک تکنیکی معاملہ بن چکا ہے جس پر سپریم کورٹ بھی الیکشن کمیشن کو مجبور نہیں کرسکتی کہ وہ 90 روز میں الیکشن کرائے۔ ملکی حالات کے تناظر میں جو کچھ اس وقت دکھائی دے رہا ہے وہ یہ ہے کہ اگلے 90یا 180 روز تو نہیں البتہ  آئندہ 2 سال میں کہیں جا کر الیکشن کیلئے راہ ہموار ہوتی نظر آرہی ہے، جیسا کہ پہلے بھی ہم ذکر کرچکے ہیں۔

بلاشبہ الیکشن تو 90روز میں ہی ہونے چاہئیں، جیسا کہ آئینِ پاکستان کہتا ہے تاہم مردم شماری کی منظوری اور تمام تر جماعتوں کی جانب سے اس کی توثیق کے بعد الیکشن کمیشن کو یہ خصوصی اختیارات مل چکے ہیں کہ وہ تکنیکی پہلوؤں سے سپریم کورٹ سے بھی حمایت حاصل کرتے ہوئے الیکشن کو اپنی مرضی سے آگے پیچھے کرسکتا ہے تاکہ نئی مردم شماری کے مطابق حلقہ بندیاں کی جائیں اور پھر ان حلقہ بندیوں کی بنیاد پر الیکشن ہوں۔ موجودہ نگران حکومت نے بھی اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں جس کے دوران گزشتہ روز پی ٹی آئی دور کے سابق وزیرِ خارجہ اور سابق وزیرِ خزانہ کو گرفتار کر لیا گیا۔ شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کی گرفتاری سائفر کے معاملے میں کی گئی ہے جس پر تاحال تفتیش جاری ہے۔

گزشتہ روز شاہ محمود قریشی نے پریس کانفرنس کے دوران  کہا کہ  اگر 90روز میں انتخابات نہیں ہوتے ، اس سے ایک روز بھی اوپر ہوتا ہے تویہ آئین کی خلاف ورزی ہے جس کے خلاف ہم سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے جس سے قبل قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ان کا دروازہ کھٹکھٹا دیا اور سائفر کے معاملے میں ان کو گرفتار کر لیا۔ آج اسد عمر کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے جس سے محسوس کچھ ایسا ہوتا ہے کہ اگر الیکشن کے 90 روز میں انعقاد کے مطالبے نہ صرف تکنیکی طور پر ممکن نہیں رہتے بلکہ اس کا راگ الاپنا بھی مضرِ صحت ثابت ہوگا۔

اسلام آباد پولیس نے بھی شیریں مزاری کی صاحبزادی ایمان مزاری کی گرفتاری کی تصدیق کردی ہے  ۔ سابق معاونِ خصوصی عثمان ڈار کے گھر، جائیداد اور فیکٹری وغیرہ کو سیل کردیا گیا ہے، اسی طرح دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف بھی 9 مئی واقعات، سائفر گمشدگی یا پھر توشہ خانہ کیس کے سلسلے میں کارروائیاں جاری و ساری ہیں۔

خاص طور پر 9 مئی کا واقعہ انتہائی افسوسناک رہا جس کی جتنی مذمت کی جائے، کم ہے۔ جب تک انتخابات  کے انعقاد کی راہیں ہموار نہیں ہوتیں، اس وقت تک   ملک جمہوریت کی راہ سے دورٹیکنوکریٹ حکومت کے فیصلوں کی زد میں  رہے گا جس سے عوام کی امیدیں فقط اس وقت وابستہ ہوسکتی ہیں کہ جب معاشی طور پر بدحال عوام کو کچھ ریلیف مل سکے۔

Related Posts