انتخابات اور سیاسی درجہ حرارت

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سب کی نظریں خیبرپختونخوا پر مرکوز ہیں، جہاں پر گورنر صوبے میں انتخابات کی تاریخ کی پیروی کے لیے صدر کے ساتھ رابطے میں مصروف ہیں، کیونکہ 30 اپریل کو پنجاب میں انتخابات کا اعلان کیا جاچکا ہے۔

آئین اپنا راستہ اختیار کر رہا ہے، اور یہ ایک اچھا شگون ہے کہ اسٹیک ہولڈرز اپنی ذمہ داریوں کو اچھے سے نبھا رہے ہیں، سپریم کورٹ کی جانب سے تحلیل شدہ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات 90 دنوں میں کرانے کے تاریخی فیصلے کے پس منظر میں الیکشن کمیشن کے ایوان صدر کو لکھے گئے خط نے بال رولنگ کا آغاز کر دیا ہے۔سپریم کورٹ کے احکامات سامنے آنے کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے بھی الیکشن کی تیاری شروع کردی گئی ہے۔

عمران خان نے ملک میں جلد از جلد انتخابات کرانے کی خاطر وفاقی حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے پنجاب اور کے پی کی دونوں اسمبلیاں تحلیل کر دیں، لیکن حکومت نے ایسا نہیں کیا اور بالآخر وہ سپریم کورٹ چلے گئے۔ ازخود نوٹس لینے کا کریڈٹ چیف جسٹس کو جاتا ہے، جنہوں نے پوری خوش اسلوبی کے ساتھ عوامی نمائندگی کی بنیادی فراہمی کا فیصلہ کیا۔

حقیقت یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں، اپنے اپنے مختصر بیانات کے باوجود، اب انتخابی مہم کی دوڑ میں شامل ہوچکی ہیں، اس سے جمہوریت مضبوط ہوئی ہے اور اسی طرح، الیکشن کمیشن نے اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داری پوری کی ہے۔

ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال مثالی نہیں، عبوری حکومت میں بھی اپوزیشن رہنماؤں کی گرفتاریوں سے ملک میں سیاسی درجہ حرارت بڑھ گیا ہے۔ عمران خان ملک بھر میں ایک ہی وقت میں انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن حکومت کا کہنا یہ ہے کہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی اس کے بعد عام انتخابات ہوں گے۔

یہ درست ہے کہ ملک کی معاشی اور سیاسی صورتحال ٹھیک نہیں ہے اور پہلے پنجاب اور کے پی میں اور بعد میں سندھ، بلوچستان اور مرکز میں انتخابات کا انعقاد واقعی ملک پر دباؤ ڈالے گا۔حکومت یا اپوزیشن لیڈر عمران خان کو ملک کو پٹڑی پر لانے کے لیے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا ہوگا کیونکہ مرحلہ وار انتخابات پاکستان کے لیے نیک شگون نہیں ہوں گے۔

Related Posts